اردو
Saturday 20th of April 2024
0
نفر 0

قرآن شاهد عظمت زهراس

 

تحرير :سید محمد علی نقوی :

اقبال فرماتے ہیں :

                               مریم از یک نسبت عیسیٰ عزیز                               از سہ نسبت حضرت زہرا عزیز

یعنی : مریم کی عظمت صرف ایک عیسی (ع) کے واسطی سے ہے

جبکہ حضرت زہراء (س) تین واسطوں سے صاحب عزت و عظمت ہیں .

حضرت فاطمہ وحی خدا کی گود میں پروان چڑھی اور پیغمبر اسلام(ص) نے انہیں ام ابیھا کہہ کر افتخار بخشا۔ وہ اسلام کا ایک حصہ ہیں جو رسول اکرم(ص) کے وجود پاک سے روشن ہوا۔ اور ان کی زندگی ہر مسلمان عورت بلکہ ہردور کے صاحب ایمان انسان کیلئے نمونہ عمل ہے۔ کیونکہ حضرت فاطمہ زھرا آسمان معرفت کا آفتاب اور پرہیزگاری اور خدا پرستی کا روشن باب ہیں، اور یہ روشنی کچھ گھنٹوں اور دنوں سے مخصوص نہیں ہے۔ بلکہ اپنی ذمہ داریوں کے آغاز سے آج تک اور پھر رہتی دنیا تک اسلامی تربیت کے ساحل پر گوہر کی ماند چمکتی رہیں گی۔ حضرت زہراء [کثرت عبادت سے] نحیف بازو اور کمزور جسم سے دوسروں کے لئے نور اور روشنی فراہم کیا کرتی تھیں .

اس کے نور کی شعائیں قیامت کے دن ہر جگہ پڑیں گیں اور آخر کار یہ وہی فاطمہ ہیں، کہ جن کی ناراضگی سے خداوند تبارک و تعالیٰ بھی ناراض اور رضاعت کے ساتھ راضی ہے، وہ گناہگاروں کی شفاعت کرکے انہیں ہمیشہ کے لئے جنت کا سزا وار بنائیں گی، وہ قیامت میں ہمارے لئے وسیلہ ہیں، یہ ساری باتیں ان کے فضائل و مناقب کی دنیا سے ایک جزکو بھی نمایاں نہیں کرتیں۔

عظمت کی چوٹیاں سر کرنے کے لئے تن و بازو کی قوت کا سہارا ضروری نہیں ہوتا اور اس کے لئے تاج و تخت کی بھی ضرورت نہیں .

بنی نوع انسان کی پہلی فرد نے جیسے ہی عالم امکان میں آنکھ کھولی تو اسے عرش کے گرد چند نور محو عبادتدکھائی دئیے ۔ آدم  نے پوچھا خالق یہ کون ہیں ؟ آواز پروردگار آئی یہ فاطمہ ، ان کے پدر گرامی محمد  ۖ ، ان کےشوہر علی  ـاور ان کی اولاد  ہے اور میں نے تمام کائنات کو انہی کے صدقہ میں خلق کیا ہے ۔

گویا پوری کائنات کی خلقت آپ کی محبت میں ہوئی اگر آپ نہ ہوتیں تو پھر نہ زمین ہوتی نہ آسمان ، نہ چاند ستارےہوتے نہ سورج اور سیارے ؛ جن و انس و ملک ، ارض و سما سب آپ کی محبت میں خلق کیے گئے وہ سیدہ  جسکے صدقہ میں کل مخلوقات وجود میں آئیں اور جن کی تربیت وحی کے زیر سایہ مرکز نزول قرآن میں ہوئی اس کےفضائل بیان کرنا جن و انس کی وسعت سے بہت بالا ہے .  

زهرا کے فضائل و کمالات صرف انسان ہی نہیں بلکہ انبیاء اور عرش معلی پر ملائکہ بھی بیان کرتے ہیں ، یہ باتصرف مخلوق تک محدود نہیں ہے بلکہ خود خالق کائنات نے بھی متعدد مقامات پر آپ کے فضائل قرآن مجید میںبیان کئے ہیں ۔

ذیل میں ہم ان میں سے چند آیات کو پیش کرتے ہیں ۔

١۔ آیة تطہیر :

(انَّمَا یُرِیدُ اﷲُ لِیُذْهبَ عَنْکُمْ الرِّجْسَ َاهلَ الْبَیْتِ وَیُطَهرَکُمْ تَطْهیرًا (احزاب3 :

یعنی اے پیغمبر (کے  اہلبیت  ! خدا تو بس یہ چاہتا ہے کہ تم کو ہر برائی سے دور رکھے اور جیسا پاک اور پاکیزہرہنے کا حق ہے ویسا پاک و پاکیزہ رکھے ۔ اس آیت کی شان نزول سے متعلق وارد ہونے والی متواتر روایتیں اسبات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ آیت تطہیر ام سلمیٰ کے گھر میں رسول اسلام ، جناب فاطمہ ، امیر المومنین اور حسنینشریفین  کے لیے نازل ہوئی یہ آیت جناب سیدہ کی عصمت پر دلیل ہے ۔

اس آیت کے نازل ہونے کے بعد رسول خدا جب نماز صبح کے لیے مسجد تشریف لے جاتے تھے تو پہلے در فاطمہپر آتے اور فرماتے تھے ۔ السلام علیکم یا اھل البیت انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت و یطھرکم تطھیرا۔

راوی کہتا ہے کہ میں ١٢ مہینہ مدینہ میں تھا اور رسول اکرم   کے اس طرز عمل کا ہر روز مشاہدہ کرتا تھا اس کاسلسلہ آپ کی زندگی کے آخری ایام تک جاری رہا ۔ ( مناقب خوارزمی ص ٢٣.

ڈاکٹر محمد طاھرالقادری   فضائل حضرت فاطمۃ الزھراء سلام اللہ علیہا میں نقل   كرتے هیں :

 "۱ ۔ عن انس بن مالک رضی اللہ عنہ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ن یمربباب فاطمہ ستة اشھر اذا خرج الی صلاة الفجر ،یقول :الصلاة یا اھل البیت انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت ویطھرکم تطھیرا(۱) "حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ چھ ماہ تک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ معمول رہا کہ جب نماز فجر کے لیے نکلتے اورحضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کے دروازے کے پاس سے گزرتے توفرماتے :اے اہل بیت !نماز قائم کرو ۔(اورپھر یہ آیت مبارکہ پڑھتے )اے اہل بیت اللہ چاہتا ہے کہ تم سے ہر طرح کی آلودگی دور کردے اورتم کوخوب پاک وصاف کردے "۔

عن عمر ابن ابی سلمة ربیب النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال:لما نزلت ھذہ الآیۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت ویطھرکم تطھیرا)فی بیت ام سلمة ،فدعافاطمۃوحسنا وحسینارضی اللہ تعالی عنہ فجللھم بکساء وعلی رضی اللہ تعالی عنہ خلف ظہرہ فجللہ بکساء ،ثم قال:اللھم! ھولاء اھل بیتی ،فاذھب عنھم الرجس وطھرھم تطھیرا "پروردہ نبی حضرت عمربن ابی سلمہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنھا کے گھر میں یہ آیت مبارکہ ۔۔۔اے اہل بیت !اللہ تویہی چاہتا ہے کہ تم سے (ہرطرح کی) آلودگی دورکردے اورتم کو خوب پاک وصاف کردے ۔۔۔نازل ہوئی؛ توآپ نے حضرت فاطمہ حضرت حسن اورحضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو بلایااورایک کملی میں ڈھانپ لیا ،پھر فرمایا :الہیٰ !یہ میرے اہل بیت ہیں ان سے نجاست دور کراوران کو خوب پاک وصاف کردے"

 

 

 

٢۔کوثر قرآن:

انا اعطیناک الکوثر ) اے رسول  ۖ ! ہم نے تم کو کوثر عطا کیا کوثر کا وسیع اور جامع معنی خیر کثیر ہے اس کےمصادیق بہت زیادہ ہیں لیکن مختلف شیعہ اور سنی علماء نے اس کا اہم ترین مصداق وجود مبارک سیدہ ـ کو قرار دیاہے سورة کوثر کے شان نزول میں بیان ہوا ہے کہ مشرکین مکہ پیغمبر کو فاقد النسل کا طعنہ دیتے تھے خدا نے انکا جواب سورة کوثر کے ذریعے دیا یعنی پیغمبر کی نسل کبھی منقطع نہیں ہو گی بلکہ آپ  کی نسل قیامت تک زہراکے ذریعے باقی رہے گی اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سورة کوثر حضرت زهرا کی شان مین نازل ہوئی ہے ۔

کوثر کے معنی کے بارے میں اہل سنت کے مشہور و معروف مفسر فخر رازی نے لکھا ہے کہ کوثر سے مراد اولادپیغمبر ہے ) تفسیر فخر رازی ذیل آیة مباھلہ (

3۔ آیة مباهله:

فَمَنْ حَاجَّکَ فِیہِ مِنْ بَعْدِ مَا جَائَکَ مِنْ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ َابْنَائَنَا وَابْنَائَکُمْ وَنِسَائَنَا وَنِسَائَکُمْ وَانْفُسَنَا وَانْفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَهلْ فَنَجْعَلْلَعْنَةَ اﷲِ عَلَی الْکَاذِبِینَ ( آل عمران 61.

(تو ( اے پیغمبر ) کہو کہ ہم اپنے بیٹوں کو بلائیں تم اپنے بیٹوں کو اور ہم اپنی عورتوں کو اور تم اپنی عورتوں کواور ہم اپنے نفسوں کو اور تم اپنے نفسوں کو اس کے بعد ہم سب مل کر( خدا کی بارگاہ میں ) گڑگڑائیں اور جھوٹوں پرخدا کی لعنت کریں ۔

حضرت عیسیٰ  ـ کے بارے میں نجران کے نصاریٰ کو پیغمبر  ۖ نے بہت سمجھایا کہ وہ خدا کے بیٹے نہیں ہیں لیکن انہوں نے ماننے سے انکار کر دیا آخر میں مباہلہ طے ہوا ۔

مباہلہ کے میدان میں آپ  ۖ اپنے بیٹوں کی جگہ نواسوں کو اور عورتوں کی جگہ اپنی لخت جگر جناب زهراء کو اور اپنی جان کی جگہ امیر المومنین کو لائے جن کو دیکھ کر نصاریٰ نے مباہلہ سے انکار کر دیا اور کہا خدا کی قسم ! ہم ایسے نورانی چہرے دیکھ رہے ہیں کہ اگر یہ پہاڑ کو اپنی جگہ سے ہٹ جانے کو کہیں گے تو یقینا ہٹ جائے گا ۔

یہ آیت واضح لفظوں میں اعلان کر رہی ہے کہ پیغمبر اکرم  ۖ نے جب مباہلہ کیا تو جناب فاطمہ آپ کے ساتھ تھیں اور یہ ایسی مقدس ذات ہے جس کو چار معصومین کے درمیان رکھا ۔

نجران کے نصاریٰ سے مباہلہ کوئی آسان کام نہ تھا عام مرد و زن نہ ہی اس مباہلہ کی طرف قدم اٹھا سکتے تھے اور نہ ہی مقابل کو رسوا و مغلوب کر سکتے تھے کیونکہ ایسے معرکہ کو پاک و مطہر ہستیاں ہی طے کرتی ہیں کہ جن میں حضرت زهرا ء بھی ہیں ۔

٤۔آیة مودة:

آپ کی فضیلت بیان کرنے والی آیات میں سے ایک آیت مودة ہے (قُلْ لاَاسْلُکُمْ عَلَیْہِ َجْرًا ِالاَّ الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبَی وَمَنْ یَقْتَرِفْ حَسَنَةً نَزِدْ لَہُ فِیہَا حُسْنًا ِانَّ ﷲَ غَفُور شَکُور( )شورٰی : ٢٣)

اے رسول  تم کہہ دو کہ میں اس( تبلیغ  رسالت) کا اپنے قرابت داروں (اہل بیت  ) کی محبت کے سوا تم سے کوئیصلہ نہیں مانگتا ۔

رسول اکرم  ۖنے فرمایا کہ خدا نے تم پر میری اجرت ، میرے اہلبیت کی محبت کو قرار دیا ہے اور روز قیامت اس محبت کے بارے میں تم سے سوال کروں گا .

(الصواعق المحرقہ ص ٢٦١)

یعنی قیامت کے دن جس چیز کے بارے میں سب سے سوال کیا جائے گا ، چہاردہ معصومین کی ولایت ہے ، گویا ولایت جناب سیدہ زهرا کے متعلق بھی سوال کیا جائے گا ۔

پیغمبر اکرم  ۖ نے فرمایا  : خدا نے انبیاء کو مختلف درختوں سے پیدا کیا اور مجھ کو اور علی  کو ایک درخت سے پیدا کیا ، میں اس درخت کی جڑ ، علی  ـ اس کا تنا ، فاطمہاس کا پھول اور حسنین اس کے پھل ہیں ۔ جس نے اس درخت کی شاخو ں میں سے ایک شاخ کو پکڑا تو اس نے نجات پائی اور جو ان سے منحرف ہوا وہ گمراہ ہوا ، اگر کوئی بندہ ہزار سال تک صفا و مروہ کے درمیان عبادت خدا کرے اور پھر ایک ہزار سال تک اور اس کے بعد پھر ایک ہزار سال تک عبادت کرے لیکن ہم اہل بیت  کی محبت اس کے دل میں نہ ہو تو خدا اس کو منہ کے بل جہنم میں ڈالے گا پھر اس آیت کی تلاوت فرمائی : قُلْ لاَأسْلکُمْ عَلَیْہِ َاجرا ًأ ِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبَی :

جناب سیدہ کی ولایت پر ایمان و اعتقاد کے بغیر عبادت نہ تو قبول ہو گی اور نہ شمار کی جائے گی بلکہ اس کی جگہ جہنم ہو گی ۔

٥۔توبہ آدم :

 )فَتَلَقَّی آدَمُ مِنْ رَبِّہِ کَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَیْہِ ِنَّہُ ہُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیمُ (بقرة :٣٧

'' پھر آدم نے اپنے پروردگار سے ( معذرت  کے لیے ) چند الفاظ سیکھے پس خدا نے ان الفاظ کی برکت سے آدم کیتوبہ قبول کر لی ۔

اس آیت کے ذیل میں بڑی اہمیت کی حامل روایات نقل ہوئی ہیں اگر انسان اس آیت اور ان روایات پر غور کرے توبخوبی درک کر سکتا ہے کہ جناب فاطمہ  علت و سبب خلقت کائنات ہیں ۔

جب فرشتوں نے آدم کو سجدہ کیا تو انہیں تھوڑا احساس کبر ہوا اور فخریہ لہجہ میں کہا: کیا تو نے ایسی مخلوق خلقکی ہے جو تیرے نزدیک مجھ سے زیادہ محبوب ہو ؟ اس سوال کا تین بار تکرار ہوا تو ارشاد الٰہی ہوا : اے آدم  ـ تم سے محبوب تر مخلوق میرے پاس ہے کہ اگر ان کو خلق نہ کرتا تو تم کو بھی پیدا نہ کرتا ، آدم  ـنے کہا معبود وہ کون ہیں ؟ اس وقت فرشتوں کو حکم ہوا کہ پردہ اٹھا دیں ، جیسے ہی پردہ اٹھا تو پانچ صورتیں ظاہر ہوئیں آدم نے کہا یہ کون ہیں ؟ جواب ملا یہ میرا نبی محمد  ۖ ہے یہ اس کا بھائی علی  ـہے ، یہ اس کی بیٹی فاطمہ ہے اور یہ فرزندان نبی ۖ و علی حسنین    ہیں ۔

جب آدم  ـ ترک اولی کے مرتکب ہوئے تو عرض کیا پروردگار بحق محمد و علی و فاطمہ و حسن و حسین عليهم السلام میری خطا معاف کر دے خدا نے ان کی دعا قبول کی اور انہیں معاف فرمایا ۔ (بحار الانوار ج ١١ ص ١٧٥ )

اہل سنت کے عالم دین ابن مغازلی نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ پیغمبر اکرم  ۖسے پوچھا گیا کہ وہ کلمات کہ جن کی برکت سے خدا نے آدم کی توبہ قبول کی وہ کیا ہیں ؟ آپ  ۖ نے فرمایا وہ پنجتن پاک کے اسماء ہیں محمد ، علی ، فاطمہ ، حسن اور حسین   ہیں ۔

٦۔ امانت الٰہی :

) انَّا عَرَضْنَا الْامَانَةَ عَلَی السَّمَاوَاتِ وَالْارْضِ وَالْجِبَالِ فَابَیْنَ َانْ یَحْمِلْنَہَا وَاشْفَقْنَ مِنْہَا وَحَمَلَہَا الْانْسَانُ ِنَّہُ کَانَ ظَلُومًا جَهولًا ) احزاب : ٧٢

'' بے شک ہم نے ( روز اول ) اپنی امانت کو سارے آسمان اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا تو انہوں نے اسکے اٹھانے سے انکار کیا اور اس سے ڈر گئے اور آدمی نے اسے اٹھا لیا بیشک انسان ( اپنے حق میں) بڑا ظالم  اور ناداں ہے ''۔

یہ آیت بھی ان آیات میں سے ہے جن سے ولایت سیدة زہراء ثابت ہوتی ہے کہ وہ امانت جس کو خدا نے آسمان وزمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا تھا وہ پیغمبر اسلام ، امیر المومنین ، فاطمہ زہراء ، حسنین اور باقی آئمہ  کیولایت ہے ۔

مفضل بن عمر امام جعفر صادق   ـسے نقل کرتے ہیں :

'' خدا نے اجسام کی خلقت سے دو ہزار سال قبل ارواح کو خلق کیا اور سب سے افضل و اشرف محمد و علی و فاطمہو حسنین اور نو اماموں   کی ارواح کو قرار دیا پھر اسے آسمان اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا اور جبان کے نور نے ساری جگہوں کا احاطہ کر لیا تو خطاب الٰہی ہوا یہ میرے دوست اور ولی ہیں اور ساری مخلوق پرمیری طرف سے حجت ہیں ۔۔۔ '' ۔  بحار  الانوار ج 11 ص 174

حضرت فاطمہ زہراء حجة اللہ اور ولیة اللہ ہیں ۔

تمام انسانوں حتی انبیاء پر حجت خدا ہیں ، جس طرح پیغمبر اکرم  ۖاور باقی آئمہ  پر ایمان و اعتقاد سب انبیاء کے لیے ضروری تھا اسی طرح جناب سیدہ  پر ایمان بھی ضروری تھا ۔

٧۔سورة دھر

(وَیُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَی حُبِّہِ مِسْکِینًا وَیَتِیمًا وَاسِیرًا (٨) ِنَّمَا نُطْعِمُکُمْ لِوَجْہِ ﷲِ لاَنُرِیدُ مِنْکُمْ جَزَائً وَلاَشُکُورًا )9دھر

"اور اس کی محبت میں محتاج ،یتیم اور اسیر کو کھانا کھلاتے ہیں ( اور کہتے ہیں کہ ) ہم تو تم کو بس خالص خدا کےلیے کھلاتے ہیں ، ہم نہ تم سے بدلے کے خواستگار ہیں نہ شکر گزاری کے ''۔

یہ بات بھی فریقین ( سنی و شیعہ ) کے نزدیک مسلم ہیے کہ جن ہستیوں کی شان میں یہ آیت نازل ہوئی ہے ان میںشہزادی کونین فاطمہ زهراء بھی شریک ہیں ۔

ابن عباس کہتے ہیں کہ حسنین شریفین کی عیادت کے لیے رسول اکرم  ۖ تشریف لائے اور فرمایا : اپنے فرزندان کے لیے نذر مانتے ہیں ۔ جب دونوں شہزادے صحت یاب ہو گئے تو سب نے مل کر روزے رکھے جناب فاطمہ زهراء نے چکی پیس کر پانچ روٹیاں تیار کیں افطار کے وقت سائل نے آواز دی اے اہلبیت محمد  آپ پر میرا سلام ہو مجھے کچھ کھلائیے سب نے اپنا کھانا اس کو دے دیا ۔

دوسرے دن افطار کے وقت یتیم کو اور تیسرے دن اسیر کو کھانا دینے کے بعد رسول اکرم  ۖنے جناب سیدہ کو محراب عبادت میں کھڑا دیکھا جبکہ آپ  پر ضعف طاری تھا ، آپ  ۖ رنجیدہ ہوئے کہ اتنے میں جبرائیل نازل ہوئے اور کہنے لگے اے محمد  ۖ! یہ لیجئے ، خدا آپ کو اور آپ کے اہلبیت  کو مبارکباد پیش کرتا ہے پھر سورہ دہر کی تلاوت فرمائی ( تفسیر کشاف ج ٤ ص ١٦٩ ، اسد الغابة ج ٥ ص ٥٣٠ )

جناب سیدة فاطمہ الزھراء درجہ عصمت پر فائز وہ شہزادی ہیں جن کی محبت تمام اہل ایمان پر واجب قرار دی گئی ہے اور تمام مسلمانوں کے لیے حجت خدا ہیں ان سے تمسک کرنے والوں کو شرف عظیم ، عزت وقار اور بے پناہ قرب الٰہی حاصل ہوتا ہے اور ان سے دور رہنے والوں کا سرانجام دنیا و آخرت میں گمراہی اور ضلالت ہے ۔

فاطمہ، وہ کوثر ہے جو خدا نے انہیں عطا کی ہے۔

فاطمہ، شجرہ طوبیٰ سے اٹھنے والی وہ خوشبو میں ہیں جسے شب معراج رسالتمآب ہمراہ لائے تھے۔

فاطمہ، شجرہ طوبیٰ کا وہ پھل ہے جسے شب معراج رسالتمآب نے تناول فرمایا۔

فاطمہ، وہ الھیات سے مانوس ہستی ہیں جو اپنی ولادت سے پہلے اپنی والدہ ماجدہسے ہم کلام ہوتی تھی۔

فاطمہ، ذبح عظیم کی مادر گرامی ہیں جس کی وجہ سے انہیں ام ابیھا بولا جاتا ہے۔

فاطمہ، جنت کے جوانوں کے سردار حسنین شریفین کی مادر گرامی ہیں۔

فاطمہ، مباھلہ نجران میں مرکزی نقطہ ہیں۔

فاطمہ، باپ، شوہر اور بیٹوں کے درمیان حدیث کسآ میں محور ہیں۔

فاطمہ، بل ھی ام الکلمات المحکۃ فی غیب داتھا فکانت مبھمۃ فی افق المسجد ھی الزھراء للشمس من زھرتہا الضیاء بل ہی نور عالم الانوار ومطلع الشموس ولا قمار

فاطمہ، محراب عبادت میں ملکوت کو منور کرنے والی ہیں۔

فاطمہ، بہشتی اور حوروں سے مانوس مخلوق ہے جس کے بازوں پر تازیانوں کے زخم ہیں۔

فاطمہ، ایسی معصومہ ہیں جس کا غضب و رضا اللہ کا غضب اور رضا ہے۔

فاطمہ، مرضیہ، محدثہ، طاہرہ، بتول اور منصورہ سماوات ہے۔

فاطمہ، امام وقت کی غم گسار ہیں۔ سخت ترین حالات میں بھی حتی کہ حضرت محسن کی شہادت کے وقت بھی حضرت فضہ سے امیر المومنین کے متعلق پوچھا ۔

فاطمہ، اس مہدی، برحق کی والدہ ہیں جو ا ہلبیت اطہار کے انتقام لینے والے ہیں۔

فاطمہ، تسبیح و تہلیل کی صداؤں میں اونٹ پر سوار ہو کر محشر میں نمودار ہوں گی۔

فاطمہ، اپنے حسین کی قمیض لئے اپنے چاہنے والوں کی شفاعت کی خاطر بارگاہ ایزدی میں حاضر ہوں گی۔

خدا ہمیں جناب سیدہ کے حقیقی فضائل کو سمجھنے اور ان سے تمسک اختیار کرنے کی توفیق عنایت فرمائے ۔    

                مانگو   در   زھرا ع   سے  میرزا  یہی  موقع  ہے
                                                                        تو    طالب    جنّت    ہے   وہ   مالک   جنّت   ہے

 


source : http://www.hujjat14.com/quranshahideazmtezhraurdu.htm
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

حضرت آدم ﴿ع﴾ پر سب سے پہلے سجدہ کرنے والے فرشتہ ...
خود شناسی(پہلی قسط)
قرآن کی حفاظت
جھاد قرآن و حدیث کی روشنی میں
سیاست علوی
قرآن مجید و ازدواج
عید سعید فطر
شب قدر ایک تقدیر ساز رات
آخرت میں ثواب اور عذاب
انیس رمضان / اللہ کے گھر میں پہلی دہشت گردی

 
user comment