اردو
Friday 29th of March 2024
0
نفر 0

خطبات حضرت فاطمہ زھرا (سلام اللہ علیھا)

خطبات حضرت فاطمہ زھرا (سلام اللہ علیھا)
خطبات خطبة الزھرا (س)
 خطبات خطبة الزھرا  (س) فی مسجد النبی  (ص)

رویٰ خطبة الزھرا سلام اللّٰہ علیھا فی المسجد النبی جمع من اعلام الشیعة والعامة بطرق متعددة تنتھی بالاسناد عن زید بن علی ، عن ابیہ، عن جدہ علیہ السلام۔ وعن الامام جعفر بن محمد الصادق علیہ السلام عن ابیہ الباقر علیہ السلام۔ وعن جابر الجعفی عن ابی جعفر الباقر علیہ السلام۔ وعن عبد اللّٰہ بن الحسن، عن ابیہ ۔ وعن زید بن علی، عن زینب بنت علی علیہ السلام۔ وعن رجال من بنی ھاشم، عن زینب بنت علی علیہ السلام۔ وعن عروة بن الزبیر، عن عائشة، قالوا لما بلغ فاطمة علیھا السلام اجماع ابی بکر علی منعھا فدک، وانصرف عاملھا منھا۔ لاثت خمارھا علی راسھا واشتملت بجلبابھا، واقبلت فی لُمةٍ من حفدتھا، ونساء قومھا ، تطاٴذیولھا، ما تخرم مشیتھا مشیة رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم۔
 
مسجد نبوی میں فاطمہ زھرا (ع)کاتاریخ ساز خطبہ

حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کا مسجد نبوی میں تاریخ ساز خطبہ شیعہ وسنی دونوں فریقوں نے متعدد طریقوں سے نقل کیا ھے کہ جس کی سند کا سلسلہ زید بن علی تک پهونچتا ھے ، اس طرح کہ انھوں نے اپنے پدر بزرگوار او رجد اعلیٰ سے نقل کیا ھے ، اسی طرح امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے والد امام باقر علیہ السلام سے، نیز جابر جعفی نے حضرت امام باقر علیہ السلام سے نقل کیا، اسی طرح جناب عبد اللہ بن حسن نے اپنے والد امام حسن علیہ السلام سے ،نیز زید بن علی نے زینب بنت  علی علیہ السلام سے ،اسی طرح خاندان بنی ھاشم کے بعض افراد نے زینب بنت علی علیہ السلام سے، نیز عروة بن زبیر نے حضرت عائشہ سے نقل کیا ھے ، یہ سب کھتے ھیں :

حتیٰ دخلت علی ابي بکر وهو فی حشدٍ من المھاجرین والانصار وغیرھم، فنیطت دونھا ملاء ة، فجلست ثم انّت انّةً اجہش القوم لھا بالبکاء، فارتجّ المجلس، ثم امھلت ہنیہة، حتی اذا سکن نشیج القوم، وھدات فورتھم، افتتحت الکلام بحمدالله فقالت:

” الحمدُ للّٰہ علیٰ ما انعم ولہ الشکر علی ما الھم، والثناء بماقدّم من عموم نِعَمٍ ابتداٴھا،وسبوغ آلاء اٴسداھا وتمام منَن اٴولاھا،جمّ عن الاحصاء عددھا، وناٴیٰ عن الجزاء اٴمدُھا،وتفاوت عن الادراک اْبدھا وندبھم لاِسْتِزادتھا باالشکرلاتّصالھا واستحمد الی الخلائق باجزالھا،وثنّی بالندب الی امثالھا۔

 واشھدان لا الہ الّا اللّٰہ وحد ہ لاشریک لہ،کلمةٌجعل الاخلاص تاٴ ویلھا وضمن القلوب موصولھا ،وانار فی

جس وقت جناب ابوبکرنے خلافت کی باغ ڈور سنبھالی اورباغ فدک غصب کرلیا، جناب فاطمہ(س) کوخبر ملی کہ اس نے سرزمین فدک سے آپ کے نوکروں کو ہٹاکراپنے کارندے معین کردئیے ھیں تو آپ نے چادر اٹھائی اورباپردہ ھاشمی خواتین کے جھرمٹ میںمسجد النبی(ص)کی طرف اس طرح چلی کہ نبی(ص) جیسی چال تھی اور چادرزمین پر خط دیتی جارھی تھی۔

جب آپ مسجد میں وارد هوئیں تواس وقت جناب ابو بکر،مھا جرین و انصار اور دیگر مسلمانوں کے درمیان بیٹھے هوئے تھے،آپ پردے کے پیچھے جلوہ افروز هوئیں اور رونے لگیں،دختر رسول کوروتا دیکھ کرتمام لوگوں پر گریہ طاری هوگیا،تسلی و تشفی دینے کے بعدمجمع کو خاموش کیاگیا، اور پھر جناب فاطمہ زھرا  (س) نے مجمع کو مخاطب کرتے هوئے فرمایا:

” تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ھیںجس نے مجھے اپنی بے شمار اوربے انتھا نعمتوں سے نوازا،میں شکر بجالاتی هوں اس کی ان توفیقات پرجواس نے مجھے عطا کیں، اورخدا کی حمدو ثنا ء کرتی هوں ان بے شمارنعمتوں پرجن کی کوئی انتھا نھیں، اورنہ ھی ان کاکوئی بدلاهوسکتاھے، ایسی نعمتیں جن کا تصور کرنا امکان سے باھر ھے، خدا چاھتا ھے کہ ھم اسکی نعمتوںکی قدر کریں تاکہ وہ ھم پر اپنی نعمتوں کا اضافہ فرمائے، ھمیں شکر کی دعوت دی ھے تاکہ آخرت میں بھی وہ ایسے ھی اپنی نعمتوں کا نزول فرمائے ۔

میں خدا کی وحدانیت کی گواھی دیتی هوں،وہ وحدہ لا شریک ھے، ایسی وحدانیت جس کی حقیقت اخلاص پر مبنی ھے اور جس کا مشاھدہ دل کی گھرائی سے هو تا ھے اوراس کے حقیقی معنی پر غور وفکر کرنے سے دل ودماغ روشن هوتے ھیں۔

 

 التّفکّر معقولھا،الممتنع من الا بصار روٴیتہ، ومن الاٴلسن صفتہ، ومن الا وھا م کیفیّتہ ،ابتدع الا شیاء لامن شیء کان قبلھا ،وانشاھا بلااحْتِذاء امثلةٍامْتثلھا،کوّ نھا بقدرتہ، وذراٴھابمشیتہ من غیرحا جةمنہ الی تکو ینھا ،ولا  فا ئدة لہ فی تصویر ھا، الا تثبیتا لحکمتہ ،وتنبیھاً علی طاعتہ، واظھاراً  لقدرتہ،تعبّداً لبر یتہ و اعزازالدعوتہ۔ ثم جعل الثواب علی طاعتہ ووضع العقاب علی معصیتہ ،زیادةلعبادہ من نقمتہ وحیاشة لھم الی جنتہ۔

واشھد ان ابی محمدا عبدہ و رسولہ، اختارہ قبل ان ارسلہ، (وسمّاہ قبل ان اجتباہ) واصطفاہ قبل ان ابتعثہ، اذ الخلائق بالغیب مکنونة وبسَتْرِ الاھاویل مصونة،وبنھایة العدم مقرونة ،علما من اللّٰہ تعالی بمایل الامُور واحاطة بحوادث الدّهور ومعرفة بمواقع الامور، ابتعثہ اللّٰہ اتما ماً لامرہ وعزیمةعلی امضاء حکمہ وانفاذ اً لمقادیررحمتہ فراٴی الاُ مم فر قاً فی ادیانھا،عُکفَّاًعلی نیرانھا وعابدةً لاٴوثانھا، منکرةللّٰہ مع عر فا نھا ۔

 

وہ خدا جس کو آنکھ کے ذریعہ دیکھانھیںجاسکتا،زبان کے ذریعہ اس کی تعریف وتوصیف نھیں کی جاسکتی ، جو وھم وگمان میں بھی نھیں آسکتا۔

وہ خدا جس نے ایسی ایسی موجوات خلق کی جن کی اس سے پھلے نہ کوئی نظیر ملتی ھے اور نہ کوئی مثال، اس نے اپنی مرضی ومشٴیت سے اس کائنات کو وجود بخشا بغیر اس کے کہ اسے اس کے وجود کی ضرورت هو، یا اسے اس کا کوئی فائدہ پهونچتا هو۔

بلکہ کائنات کواس نے اس لئے پیدا کیا تاکہ اپنے علم وحکمت کو ثابت کرسکے ،اپنی اطاعت کے لئے تیار کرسکے، اپنی طاقت وقدرت کا اظھار کرسکے، بندوںکواپنی عبادت کی تر غیب دلاسکے اور اپنی دعوت کی اھمیت جتاسکے؟

 اس نے اپنی اطاعت پر جزاء اورنافرمانی پر سزامعین کی ھے، تاکہ اپنے بندوں کوعذاب سے نجات دے ، اورجنت کی طرف لے جائے۔

میں گواھی دیتی هوں کہ میرے پدربزرگوارحضرت محمد،اللہ کے بندے اور  رسول ھیں، ان کو پیغمبری پر مبعوث کرنے سے پھلے اللہ نے ان کو چنا،(اوران کے انتخاب سے پھلے ان کا نام محمد رکھا)اوربعثت سے پھلے ان کا انتخاب کیا، جس وقت مخلوقات عالم غیب میں پنھاں تھیں، نیست ونابودی کے پردوں میں چھپی تھیں اورعدم کی وادیوں میں تھیں ،چونکہ خداوندعالم ھر شیٴ کے مستقبل سے آگاہ ، زمانے کے حوادثات سے با خبر اورقضا وقدر سے مطلع ھے۔

 

فاناراللّٰہ باٴبی محمد( صلی الله علیہ وآلہ وسلم)ظلمھا، وکشف عن القلوب بُہَمھا وجلی عن الابصار غُمَمھا وقام فی الناس بالھدایة،وفا نقذ ھم من الغوایة وبصّرھم من العمایة۔ وھداھم الی الدّ ین القویم، ودعا ھم الی الطریق المستقیم ۔

ثم قبضہ اللّٰہ الیہ قبض رافةواختیارور غبةوایثار، فمحمد(صلی الله علیہ وآلہ وسلم)من تعب ھذہ الدارفی راحة۔

قد حُفّ با لملائکة الابرار،ورضوان الرَّبِّ الغفار،ومجاورة الملک الجبار۔

صلی اللّٰہ علی اٴبی نبیّہ وامینہ، وخیرتہ من الخلق وصفیہ والسلام علیہ ورحمةاللّٰہ وبرکاتہ۔

 

 

 

خدا نے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کومبعوث کیا تاکہ اپنے مقصد کو آگے بڑھائے، اپنے حتمی فیصلوں کو پایہٴ تکمیل تک پهونچائے اور لوگوں پر اپنی رحمت کو نازل کرے۔

(جب آپ مبعوث هوئے )تو لوگ مختلف ادیان میں بٹے هوئے تھے، کفر  و الحاد کی آگ میں جل رھے تھے، بتوں اور آگ کی پرستش کررھے تھے اورخدا کی شناخت کے بعد بھی اس کا انکار کیا کرتے تھے۔

حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وجود مقدس سے تاریکیاںچھٹ گئیںجھالت ونادانیاںدلوں سے نکل گئیں، حیرتیں و سر گردانیاں آنکھوں سے اوجھل هوگئیں، میرے باپ نے لوگوںکی ھدایت کی اور ان کوگمراھی اور ضلالت سے نجات دی ، تاریکی سے نکال کر روشنی کی طرف لے کر آئے اور دین اسلام کی راہ دکھائی اور صراط مستقیم کی طرف رہنمائی کی۔

اس کے بعدخدانے اپنے پیغمبر کے اختیار،رغبت اورمھربانی سے ان کی روح قبض کی ،اس وقت میرا باپ اس دنیا کی سختیوں سے آرام میں ھے اوراس وقت فرشتوںاور رضایت غفّاراور ملک جبّارکے قرب میں زندگی گزاررھا ھے ،خدا کی طرف سے میرے باپ،نبی اور امین خدا،خیر خلق اورصفی خداپر درود و سلام اور اس کی رحمت هو۔

ثم ّ التفتت الیٰ اھل المجلس وقالت :

انتم عباداللّٰہ نصب امرہ ونھیہ، وحملة دینہ ووحیہ، وامناء اللّٰہ علی انفسکم ،وبلغاء ٴہ الی الاُمم زعیم حقّ لہ فیکم ،وعھد قدّمہ الیکم،ونحن بقیةاستخلفھا علیکم کتاب اللّٰہ الناطق ،والقرآن الصاد ق ، والنور الساطع،والضیاء اللامع ،بیّنة بصائرہ ،منکشفة  سرائرہ ، منجلیة ظواھرہ ،مغتبطة  بہ اشیاعہ،قائداً  الی الرضوان اتباعہ، مودٍّالیٰ النجاةاستماعہ،بہ تنال حجج اللّٰہ المنوّ رة،و عزائمہ المفسرة،  و محارمہ المحذّرة و بیّناتہ  الجالیة  وبراھینہ  الکافیة، و فضائلہ المندوبة ورخصہ الموهوبہ و شرائعہ المکتوبة ۔

فجعل اللّٰہ الایمان تطھیراًلکم من الشرک، والصلاة تنزیھاً لکم من الکبر،والزکاةتزکیةللنفس،ونماءً فی الرزق،والصیام تثبیتا للاخلاص، والحج تشییدا  للدین، والعدل تنسیقا للقلوب، وطاعتنا نظاماً للملّة،واِمَامتنا اٴماناًمن الفرقة،والجھاد عزًاللاسلام۔

اس کے بعدآپ نے مجمع کو مخاطب کرکے فرمایا:

 تم خدا کے بندے ،امرونھی کے پرچم دار اور دین اسلام کے عھدہ دار هو، اور تم اپنے نفسوں پر اللہ کے امین هو ، تم ھی لوگوںکے ذریعہ دوسری قوم تک دین اسلام پهونچ رھا ھے،تم نے گویا یہ سمجھ لیا ھے کہ تم ان صفات کے حقدارهو،اور کیا اس سلسلہ میں خدا سے تمھارا کوئی عھد وپیمان ھے؟  حالانکہ ھم بقیة اللهاور قرآن ناطق ھیںوہ کتاب خدا جو صادق اور چمکتا هوا نور ھے جس کی بصیرت روشن ومنور اوراس کے اسرار ظاھر ھےں، اس کے پیرو کارسعادت مندھیں،اس کی پیروی کرنا ،انسان کوجنت کی طرف ھدایت کرتاھے ،اس کی باتوںکوسننا وسیلہٴ نجات ھے اوراس کے بابرکت وجودسے خدا کی نورانی حجتوں تک رسائی کی جاسکتی ھیں اس کے وسیلہ سے واجبات ومحرمات، مستحبات ومباھات اورقوانین شریعت حاصل هو سکتے ھیں۔

خدا وندعالم نے تمھارے لئے ایمان کو شرک سے پاک هونے کا وسیلہ قرار دیا، نمازکو تکبر سے بچنے کے لئے،زکوة کووسعت رزق اورتزکیہ ٴنفس کے لئے، روزہ کواخلاص کے لئے،حج کودین کی بنیادیں استوار کرنے کے لئے، عدالت کونظم زندگی اور دلوںکے آپس میں ملانے کے لئے سبب قرار دیا ھے۔

وذلاً لاھل الکفر والنفاق والصبر معونة  علی استیجاب الاجر ،والامر بالمعروف والنھی  عن المنکر مصلحة للعامّة،وبرّ الوالدین وقایةًمن السخط ،وصلةالارحام منساٴة فی العمر ومنماة للعدد والقصاص حقناً  للدماء والوفاء بالنذر تعریضا للمغفرة،وتوفیةالمکاییل والموازین تغیراً للبخس ،والنھی عن شرب الخمرتنزیھاًعن الرجس، واجتناب القذف حجاباعن اللعنة وترک السرقةایجاباًللعفةوحرم اللّٰہ الشرک اخلاصا لہ بالربوبیة۔

<فاتقوا اللّٰہ حق تقاتہ ولاتمو تن الاّ وانْتم مسلمون>[1]

واطیعوااللّٰہ فیما امرکم بہ ونھا کم عنہ ۔

<انمایخشی اللّٰہ من عبادہ العلماء>[2]

ثم قالت :  ایھاالناس اعلموا انّی فاطمة ،وابی محمد (صلی الله علیہ وآلہ وسلم ) اقول عوداً وبدواً  اٴولا اقول مااقول غلطا،ولاافعل ماافعل شططا۔

 

 اورھماری اطاعت کو نظم ملت اور ھماری امامت کوتفرقہ اندازی سے دوری، جھاد کو عزتِ اسلام اور کفار کی ذلت کاسبب قرر دیا،اور صبر کو ثواب کے لئے مددگارمقرر کیا،امر بالمعروف و نھی عن المنکرعمومی مصلحت کے لئے اور والدین کےساتھ نیکی کو غضب سے بچنے کاذریعہ اورصلہ رحم کو تاخیر موت کاوسیلہ قراردیا ،قصاص اس لئے رکھاتاکہ کسی کوناحق قتل نہ کرونیزنذر کوپوراکرنے کوگناھگاروںکی بخشش کاسبب قرار دیااورپلیدی اورپست حرکتوںسے محفوظ رہنے کے لئے شراب خوری کوحرام کیا،زنا کی نسبت دینے سے اجتناب کو لعنت سے بچنے کا ذریعہ بنایا ،چوری نہ کرنے کوعزت وعفت کا ذریعہ قرار دیا، خدا کے ساتھ شرک کوحرام قرار دیا تاکہ اس کی ربو بیت کے بارے میں اخلاص باقی رھے۔

”اے لوگو!       تقویٰ وپرھیز گاری کواپناؤ اور تمھارا خاتمہ اسلام پر هو“

اوراسلام کی حفاظت کروخدا کے اوامرونواھی کی اطاعت کرو۔

”اورخدا سے صرف علماء ڈرتے ھیں ۔“

اس کے بعد جناب فاطمہ زھرا نے فرمایا:

 اے لوگو!  جان لو میں فاطمہ هوں، میرے باپ حضرت محمد مصطفی  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تھے،  میری پھلی اور آخری بات یھی ھے ،جو میں کہہ رھی هوں وہ غلط نھیں ھے اور جو میں انجام دیتی هوں بے هودہ نھیں ھے۔

<لقدجائکم رسول من انفسکم عزیز علیہ ماعنتم حر یص علیکم بالمومنین روف رحیم ۔>[3]

فانْ تَعزُوہُ وتعرفوہ  تَجدوہ ابی دون نسائکم،واخاابن عمّی دون رجالکم ولنعم المعزیُِّ الیہ صلی الله علیہ و آلہ وسلم  ۔

   فبلّغ الرّسالةصادعاََََبالنَّذارةِ ،مائلاَعن مدرجةالمشرکین ضارباثبجھم، آخذاًباٴ کظامھمْ داعیاًالی سَبیلِ ربّہ بالحکمة والموعظة  الحسنة یجفّ الاصنام وینکث الھام حتیٰ انھزم الجمع وولّواالدّبر حتی تفرّی اللیل عن صبحہ واَسفر الحقّ عن محضہ و نطق زعیم الدین وخرست شقاشق الشّیاطین وطاح وشیظ النّفاق وانحلّت عقد الکفر والشّقاق وفھتم بکلمة الاخلاص و فی نفر من البیض الخماص ۔

 وکنتم علی شفا حفرة من النّار مذقة الشارب و نُھزة الطّامعٍ وقبسةالعجلان و موطیٴ الاقدام تَشربون الطَّرق وتقتاتون القدّ اَذلّةًخاسیٴن تخافون ان یتخطّفکم النّاس من حولکم۔

”خدانے تم ھی میںسے پیغمبر کو بھیجاتمھاری تکلیف سے انھیںتکلیف هوتی تھی وہ تم سے محبت کرتے تھے اورمومنین کے حق میں دل سوز وغفورورحیم تھے۔“

وہ پیغمبر میرے باپ تھے نہ کہ تمھاری عورتوں کے باپ،میرے شوھر کے چچازاد بھائی تھے نہ کہ تمھارے مردوںکے بھائی،اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے منسوب هونا کتنی بھترین نسبت اور فضیلت ھے۔

انھوں نے دین اسلام کی تبلیغ کی اور لوگوں کوعذاب الٰھی سے ڈرایا، اورشرک پھیلانے والوں کا سد باب کیاان کی گردنوںپرشمشیرعدالت رکھی اورحق دبانے والوںکا گلادبادیاتاکہ شرک سے پرھیز کریں ا ور توحید وعدالت کوقبول کریں۔

اپنی وعظ و نصیحت کے ذریعہ خداکی طرف دعوت دی،بتوں کو توڑااور ان کے سروں کوکچل دیا،کفارنے شکست کھائی اورمنھ پھیر کر بھاگے ،کفر کی تاریکیاں دور هوگئیں اورحق مکمل طور سے واضح هوگیا،دین کے رھبر کی زبان گویاهوئی اورشیاطین کی زبانوں پر تالے پڑ گئے ، نفاق کے پیروکار ھلاکت و سر گردانی کے قعر عمیق میں جا گرے کفر و اختلاف اور نفاق کے مضبوط بندھن ٹکڑے ٹکڑے هوگئے۔

(اور تم اھلبیت (ع) کی وجہ سے) کلمہ شھادت زبان پر جاری کرکے لوگوں کی نظروں میں سرخ رو هوگئے ،درحالانکہ تم دوزخ کے دھانے پر اس حالت میںکھڑے تھے کہ جیسے پیاسے شخص کے لئے پانی کا ایک گھونٹ اور بھو کے شخص کے لئے روٹی کا ایک تر لقمہ، اور تمھارے لئے شعلہ جہنم اس راہ گیر کی طرح جستجو میں تھاجو اپنا راستہ تلاش کرنے کے لئے آگ کی راہنمائی چاھتا ھے۔

 

فانقذکم اللّٰہ تبارک وتعالیٰ بابی محمد(صلی الله علیہ آلہ وسلم) بعد اللتیا والتی،و بعد ان مُنی ببُھم الرجال وذوبان العرب ومردة  اھل الکتاب <کلما اوقدوانارا للحرب اطفاٴھا اللّٰہ>[4]

او نجم قرن الشیطان ،او فغرت فاغرة من المشرکین قذف اخاہ علیاًفی لهواتھا،فلا ینکفیء حتی یطاٴجناحھا باخمصہ ،ویخمد لھبھا بسیفہ مکدودا فی ذات اللّٰہ، مجتھدَا فی امر اللّٰہ قریباً من رسول اللّٰہ ،سیدا فی اولیاء اللّٰہ، مشمّرا ناصحاً ،مجداً کادحاً لاتاخذہ فی الله لومة لائم  وانتم فی رفا ھیة من العیش وادعون فاکهون ، آمنون تتربصون بنا الدوائر، وتتوکفون الاخبار ،وتنکصون عند النّزال،وتفرون من القتال۔

تم قبائل کے نحس پنجوںکی سخت گرفت میں تھے گندا پانی پیتے تھے اور حیوانوںکو کھال سمیت کھا لیتے تھے،اور دوسروں کے نزدیک ذلیل وخوارتھے اوراردگردکے قبائل سے ھمیشہ ھراساںتھے۔

یھاں تک خدا نے میرے پدر بزرگوار محمدمصطفےٰ (ص)کے سبب ان تمام چھوٹی بڑی مشکلات کے باوجود جو انھیں درپیش تھی ،تم کو نجات دی، حالانکہ میرے باپ کو عرب کے بھیڑئے نماافراد اوراھل کتاب کے سرکشوںسے واسطہ تھا ”لیکن جتنا وہ جنگ کی آگ کو بھڑ کا تے تھے خدا اسے خاموش کر دتیا تھا“ اور جب کو ئی شیاطین میں سے سر اٹھا تا یا مشرکوں میںسے کوئی بھی زبان کھولتاتھا توحضرت محمد اپنے بھائی (علی) کوان سے مقابلہ کے لئے بھیج دیتے تھے، اورعلی (ع)اپنی طاقت وتوانائی سے ان کو نیست ونابود کردیتے تھے اور جب تک ان کی طرف سے روشن کی گئی آگ کو اپنی تلوارسے خاموش نہ کردیتے میدان جنگ سے واپس نہ هوتے تھے۔

(وہ علی (ع)) جو اللہ کی رضاکے لئے ان تمام سختیوںکاتحمل کرتے رھے اورخدا کی راہ میں جھاد کرتے رھے ،رسول اللہ(ص)کے نزدیک ترین فرد اور اولیاء اللہ کے سردار تھے ھمیشہ جھاد کے لئے آمادہ اور نصیحت کرنے کے لئے جستجو میں رھتے تھے، لیکن تم اس حالت میںآرام کے ساتھ خوش وخرم زندگی گزارتے تھے،(اور ھمارے لئے کسی بری) خبرکے منتظررھتے تھے اوردشمن کے مقابلہ سے پرھیز کرتے تھے نیز جنگ کے وقت میدان سے فرارهوجایا کرتے تھے ۔

فلما اختار اللّٰہ لنبیّہ دار انبیائہ وماوی اصفیائہ، ظھرت  فیکم حسیکةُ النفاق،وسمل جلباب الدین ،ونطق کاظم الغاوین ،ونبغ خامل الاقلین ،وھدر فنیق المبطلین، فخطر فی عرصاتکم ، واطلع الشیطان راسہ من مغرزہ ھاتفا بکم،فالفاکم لدعوتہ مستجیبین ، وللعزة فیہ ملاحظین ،ثم استنہضکم فوجدکم خفافا واحمشکم فالفاکم غضابا ، فوسمتم غیر ابلکم ،واوردتم غیر مشربکم، ھذا والعھد قریب،  والکلم رحیب، والجرح لما یندمل، والرسول لما یقبر،ابتداراً  زعمتم خوف الفتنة۔[5]

فھیھات منکم   وکیف بکم   وانی توٴفکون ، و ھذا کتاب اللّٰہ بین اظھرکم، اٴمورہ ظاھرة، واحکامہ زاھرة، واعلامہ باھرة وزواجرہُ لائحة  واوامرہ واضحة قد خلفتموہ وراء ظهورکم ارغبة عنہ تریدون؟ ام بغیرہ تحکمون ؟ <بئس للظالمین بدلا >[6]

جب خدا نے اپنے رسولوں اور پیغمبروںکی منزلت کو اپنے حبیب کے لئے منتخب کرلیا، تو تمھارے اندر کینہ اور نفاق ظاھر هوگیا،لباس دین کہنہ هوگیا اور گمراہ لوگوں کے سِلے منھ گھل گئے، پست لوگوںنے سر اٹھالیا، باطل کااونٹ بولنے لگااور تمھارے اندر اپنی دم ھلانے لگا، شیطان نے اپنا سر کمین گاہ سے باھرنکالااورتمھیں  اپنی طرف دعوت دی، تم کو اپنی دعوت قبول کرنے کے لئے آمادہ پایا ، وہ تم کو دھوکہ دینے کا منتظر تھا، اس نے ابھارا اورتم حرکت میںآگئے اس نے تمھیں غضبناک کیا، تم غضبناک هوگئے وہ اونٹ جو تم میںسے نھیں تھا تم نے اسے علامت دار بناکر اس جگہ بٹھادیا جس کا وہ حق دار نہ تھا ،حالانکہ ابھی پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی موت کوزیادہ وقت نھیں گزراتھا اور ھمارے زخم دل نھیں بھرے تھے ، زخموں کے شگاف بھرے نھیں تھے ،ابھی پیغمبر  (ص)کو دفن بھی نھیں کیا تھا کہ تم نے فتنہ کے خوف کے بھانے سے خلافت پر قبضہ جمالیا ”لیکن خبرداررهو کہ تم فتنہ میں داخل هوچکے هو اور دوزخ نے کافروںکا احاطہ کرلیا ھے “۔

افسوس تمھیں کیا هوگیا ھے اور تم نے کونسی ڈگراختیارکرلی ھے حالانکہ اللہ کی کتاب تمھارے درمیان موجود ھے اوراس کے احکام واضح اوراس کے امرونھی ظاھرھیں تم نے قرآن کی مخالفت کی اور اسے پس پشت ڈال دیا، کیا تم قرآن سے روگردانی اختیارکرنا چاھتے هو؟یا قرآن کے علاوہ کسی دوسری چیز سے فیصلہ کرنا چاھتے هو؟ 
”ظالمین کے لئے کس قدر برا بدلا ھے“

<”ومن یبتغ غیرالاسلام دینا فلن یقبل منہ وهو فی الآخرة من الخاسرین ۔>[7]

   ثمّ لم تلبثو ا الا ریث ان تسکن نفرتھا ،ویسلس قیادھا ،ثمّ اخذتم تورون وقدتھا وتھیجون جمرتھا،  وتستجیبون لھتاف الشیطان الغویّ واطفاء انوار الدین الجلی وإھمال سنن النبی الصفی، تشربون حسواً فی ارتغاء وتمشون لاھلہ وولد ہ فی الخمرة والضراء ،ویصیر منکم علیٰ مثل حزّالمدیٰ،وَوُخْزالسنان فی الحشاء ۔

وانتم الان تزعمون ان لا ارث لی من ابی ۔< افحکم الجاھلیة تبغون  ومن احسن من اللّٰہ حکماً لقوم یوقنون >[8]

افلا تعلمون،! بلیٰ قد تجلی لکم کا الشمس الضاحیة انی ابنتہ۔

 اٴیَّھا المسلمون !  اٴ اُغلب علی ارثی۔؟

” جو شخص اسلام کے علاوہ کسی دوسرے دین کو اختیا رکریگا اس کا دین قبول نھیں کیا جائیگا اورآخرت میں ایسا شخص سخت گھاٹے میں هوگا ۔“

تم خلافت کے مسئلہ میںاتنا بھی صبرنہ کرسکے کہ خلافت کے اونٹ کی سرکشی خاموش هوجائے اوراسکی قیادت آسان هوجائے(تاکہ آسانی کے ساتھ اس کی مھار کو ھاتھوں میں لے لو)  اس وقت تم نے آتش فتنہ کو روشن کردیا اور اس کے ایندھن کو اوپر نیجے کیا (تاکہ لکڑیاں خوب آگ پکڑلیں) اورشیطان کی دعوت کو قبول کرلیا اور دین کے چراغ اور سنت رسول(ص) کوخاموش کرنے میں مشغول هوگئے ،تم ظاھر کچھ کرتے هو لیکن تمھارے دلوں میں کچھ اور بھرا هوا ھے۔

میں تمھارے کاموں پر اس طرح صبر کرتی هوں جس طرح کسی پرچھری اورنیزے سے پیٹ میں زخم کردیا جاتا ھے، اور وہ اس پر صبر کرتا ھے  ۔

تم لوگ گمان کر تے هو کہ ھمارے لئے ارث نھیںھے، ؟! ” کیا تم سنت جاھلیت کو نھیں اپنا رھے هو ؟!!

 ” کیا یہ لوگ (زمانہ) جاھلیت کے حکم کی تمنا رکھتے ھیں حالانکہ یقین کرنے والوں کے لئے حکم خدا سے بھتر کون هوگا۔“

 کیا تم نھیں جا نتے کہ صاحب ارث ھم ھیں، چنانچہ تم پرروزروشن کی طرح واضح ھے کہ میںرسول کی بیٹی هوں، اے مسلمانو! کیا یہ صحیح ھے کہ میں اپنے ارث سے محروم رهو ں(اور تم میری خاموشی سے فا ئدہ اٹھاکر میرے ارث پر قبضہ جمالو۔)

یا ابن ابی قحافة اٴفی کتاب اللّٰہ  ترث اباک ولا ارث ابی ؟ <لقد جئت شیئا فریا>

افعلیٰ عمدٍ ترکتم کتاب اللّٰہ ونبذ تموہ وراء ظهور کم اذیقول: <وورث سلیمانُ داودَ >[9]

وقال فیمااقتص من خبریحییٰ بن زکریا علیہ السلام اذ قال:  <ربِّ ھب لی من لدنک ولیاًیرثنی ویرث من آل یعقوب >[10]

وقال :<واولوالارحام بعضھم اولیٰ ببعض فی کتاب اللّٰہ > [11]

وقال :<یو صیکم اللّٰہ  فی اولا دکم للذکرمثل حظ الانثیین> [12]

وقال :<ان تر ک خیرا الوصیة للوالدین والا قربین با لمعروف حقاعلی المتقین>[13]

اے ابن ابی قحافہ  !  کیایہ کتاب خدا میں ھے کہ تم اپنے باپ سے میراث پاؤ ا ورھم اپنے باپ کی میراث سے محروم رھیں، تم نے فدک سے متعلق میرے حق میں عجیب وغریب حکم لگایا ھے، اور علم وفھم کے با وجود قرآن کے دامن کو چھوڑدیا ،  اس کو پس پشت ڈالدیا؟

کیا تم نے بھلادیا کہ خدا قرآن میں ارشاد فرماتا ھے <وورث سلیمان داود> ”جناب سلیمان نے جناب داود سے ارث لیا“، اورجناب یحيٰ بن زکریاکے بارے میں ارشاد هوتا ھے کہ انهوں نے دعا کی:

”بارِ الہٰا ! اپنی رحمت سے مجھے ایک فرزند عنایت فرما، جو میرا اورآل یعقوب کا وارث هو“،  نیز ارشاد هوتا ھے:  ” اور صاحبان قرابت خدا کی کتاب میں باھم ایک دوسرے کی (بہ نسبت دوسروں ) زیادہ حق دار ھیں۔“ اسی طرح حکم هوتا ھے کہ ” خدا تمھاری اولاد کے حق میں تم سے وصیت کرتا ھے کہ لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ھے “ ۔

 نیز خداوندعالم نے ارشاد فرمایا:

 ”تم کو حکم دیا جاتا ھے کہ جب تم میں سے کسی کے سامنے موت آکھڑی هو بشرطیکہ وہ کچھ مال چھوڑجائے تو ماں باپ اور قرابت داروں کے لئے اچھی وصیت کرے ، جو خدا سے ڈرتے ھیں ان پر یہ ایک حق ھے۔“

وزعمتم ان لا حَظْوَة لی ولا ارث من ابی ، ولا رحم بیننا، اٴفخصّکم اللّٰہ بآیةاخرج  ابی منھا ؟ ام ھل تقولون ان اھل ملتین لا یتوارثان؟اولست انا وابی من اھل ملة واحدة؟ ام انتم اعلم بخصوص القرآن وعمومہ من ابی وابن عمی ؟

فدونکھا مخطو مة مر حو لة ، تکون معک فی قبرک، تلقاک یوم حشرک ،فنعم الحکم اللّٰہ، و  نعم  الزعیم محمد(صلی الله علیہ  آلہ وسلم) والموعد القیامةوعندالساعة یخسر المبطلون ولا ینفعکم اذ تندمون <ولکل نبامستقر >[14]

<وسوف تعلمون من یاتیہ عذاب یخزیہ ویحلّ علیہ عذاب مقیم>[15]

 کیا تم گمان کرتے هو کہ میرا اپنے باپ سے کوئی رشتہ نھیں ھے اور مجھے ان سے میراث نھیں ملے گی ؟

 کیا خداوندعالم نے ارث سے متعلق آیات کو تم ھی لوگوںسے مخصوص کردیا ھے؟ اور میرے باپ کو ان آیات سے الگ کردیا ھے ؟یا تم کھتے هو کہ میرا اورمیرے باپ کا دوالگ الگ ملتوں سے تعلق ھے ؟ لہٰذا ایک دوسرے سے ارث نھیں لے سکتے۔

آیاتم لوگ میرے پدربزرگوار اور شوھر نامدارسے زیادہ قرآن کے معنیٰ ومفاھیم ،عموم وخصوص اورمحکم ومتشابھات کوجانتے هو ؟

تم نے فدک اور خلافت کے مسئلہ کو اونٹ کی طرح مھار کرلیا ھے اور اس کو آمادہ کرلیاھے جو قبر میں تمھاری ساتھ رھے گا اور روز قیامت ملاقات کریگا ۔

 اس روز خدا بھترین حاکم هوگا اور محمد بھترین زعیم ، ھمارے تمھارے لئے قیامت کا دن معین ھے وھاںپر تمھارا نقصان اور گھاٹاآشکارهوجائےگا اورپشیمانی اس وقت کوئی فائدہ نہ پهونچائے گی،” ھر چیزکے لئے ایک دن معین ھے“ ۔ ” عنقریب ھی تم جان لوگے کہ عذاب الٰھی کتنا رسوا کنندہ ھے ؟اور عذاب بھی ایسا کہ جس سے کبھی چھٹکارا نھیں“۔
  خطاب للانصار

ثمّ رمت بطرفھا نحو الانصار فقالت :یا معشر (النقیبة)واعضاد الملة وحضنة الاسلام ،ما ھذہ الغمیزة فی حقی،والسنّة عن ظلامتی ؟

اماکان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ والہ ابی یقول: ”المرء یحفظ فی ولدہ“سرعان ما احدثتم و عجلان ذا  اھالة ، ولکم طاقة بما احاول وقوّة علی ما اطلب واٴزاول ۔

اٴتقولون : مات محمد (ص)،   فخطب جلیل، استوسع وہنہ،واستنھر فتقہ، و انفتق رتقہ ،واظلمت الارض لغیبتہ وکسفت الشمس والقمر، وانتثرت النجوم لمصیبتہ،  واکدت الآمال، وخشعت الجبال ،واُضیع الحریم ،وازیلت الحرمة عند مماتہ ۔

فتلک واللّٰہ النازلة الکبریٰ والمصیبة العظمیٰ ، لامثلھا  نازلة، ولا بائقة عاجلة، اعلن بھا کتاب اللّٰہ جلّ      ثنا وٴہ فی افنیتکم وفی ممساکم ومصبحکم یھتف فی افیتکم  ھتافا وصراخا وتلاوة والحانا،ولقبلہ ما حلّ بانبیاء اللّٰہ ورسلہ حکم فصل وقضاء حتم ۔

 

 
انصار سے خطاب

اس کے بعد انصارکی طرف متوجہ هوئیںاورفرمایا:

اے اسلام کے مددگار بزرگو!  اور اسلام کے قلعوں،میرے حق کو ثابت کرنے میںکیوںسستی برتتے هو اور مجھ پر جو ظلم وستم هورھاھے اس سے کیوںغفلت  سے کام لے رھے هو ؟! کیا میرے باپ نے نھیں فرمایاتھا کہ کسی کا احترام اس کی اولاد میں بھی محفوظ رھتاھے( یعنی اس کے احترام کی وجہ سے اس کی اولادکااحترام بھی هوتا ھے؟)

تم نے کتنی جلدی فتنہ برپا کردیا ھے اور کتنی جلدی هوا وهوس کے شکار هوگئے! تم اس ظلم کو ختم کرنے کی قدرت رکھتے هو اور میرے دعوی کو ثابت کرنے کی طاقت بھی۔

یہ کیا کہہ رھے هو کہ محمد مرگئے ! (او ران کا کام تمام هوگیا)  یہ ایک بھت بڑی مصیبت ھے جس کا شگاف ھر روز بڑھتا جارھاھے اورخلاء واقع هو رھا ھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے جانے سے زمین تاریک هوگئی اور شمس وقمر بے رونق هوگئے، ستارے مدھم پڑ گئے، امیدیں ٹوٹ گئیں،پھاڑوں میں زلزلہ آگیااوروہ پاش پاش هوگئے ھیں ،حرمتوں کا پاس نھیں رکھا گیا اور پیغمبر اکرم  (ص)کی رحلت کے وقت ان کے احترام کی رعایت نھیں کی گئی۔

<وما محمد الا رسول قد خلت من قبلہ الرّسل افان مات اوقتل انقلبتم علی اعقابکم ومن ینقلب علی عقبیہ فلن یضراللّٰہ شیئا وسیجزی اللّٰہ الشاکرین [16]

اٴیْھاً  بنی قیلہ !  اٴ اٴہضم تراث ابی؟ و انتم  بمرای منّی ومسمع، ومنتدی ومجمع  تلبسکم الدعوة وتشملکم الخُبرة وانتم ذوو العدد والعدة والاداة والقوة،وعندکم السلاح والجُنة  تو ا فیکم الدعوة فلا تجیبون ، وتاتیکم الصرخة فلا تغیثون وانتم موصوفون بالکفاح ،معروفون بالخیر والصلاح ،والنخبة التي انتخبت والخیرة التی اختیرت لنا اھل البیت ۔

قاتلتم العرب ،وتحملتم الکدّ والتعب،وناطحتم الامم وکافحتم البُھم،لا نبرح ولا تبرحون ،نامرکم فتاتمرون ، حتی اذا دارت بنا رحی الاسلام ودرّ حلب الایام ،وخضعت نعرة الشرک، وسکنت فورة الافک وخمدت نیران الکفر،وھداٴت دعوة الھرج،و استوسق نظام الدین ۔

خدا کی قسم یہ ایک بھت بڑی مصیبت تھی جس کی مثال دنیا میں نھیں مل سکتی۔

یہ اللہ کی کتاب ھے جس کی صبح وشام تلاوت کی آواز بلند هورھی ھے اور انبیاء علیھم السلام کے بارے میں اپنے حتمی فیصلوں کے بارے میں خبر دے رھی ھے اور اس کے احکام تغیر ناپذیر ھیں(جیسا کہ ارشاد هوتا ھے) :

”اور محمد(ص)صرف خدا کے رسول ھیں، ان سے پھلے بھی دوسرے پیغمبرموجود تھے، اب اگر وہ اس دنیا سے چلے جائیں، یا قتل کردئے جائیں تو کیا تم دین سے پھر جاوٴگے، اور جو شخص دین سے پھر جائے گا وہ خدا کو کوئی نقصان نھیں پهونچاسکتا،خدا شکر کرنے والوںکو جزائے خیردیتاھے“ ۔

اے فرزندان قیلہ( اوس وخزرج) کیا یہ مناسب ھے کہ میں اپنے باپ کی میراث سے محروم رهوں جبکہ تم یہ دیکھ رھے هواور سن رھے هو اوریھاں حاضربھی هو  اور میری آوازتم تک پهونچ بھی رھی ھے اور تم واقعہ سے با خبر بھی هو، تمھاری تعداد زیادہ ھے، تمھارے پاس طاقت واسلحہ بھی ھے، اور میں تم کو اپنی مدد کے لئے پکار رھی هوں، لیکن تم اس پر لبیک نھیں کھتے، میری فریادکو سن رھے هو مگر فریاد رسی نھیں کرتے هو، تم بھادری میںمعروف اور نیکی سے موصوف اورخود نخبہ هو ، تم ھی ھم اھلبیت (ع) کے لئے منتخب هوئے ،تم نے عربوںکے ساتھ جنگیں لڑیں، سختیوں کوبرداشت کیا، مختلف قبیلوں سے جنگ کی، سورماوٴں سے زورآزمائی کی ، جب ھم

فانّٰی حُرتم بعد البیان  واسررتم بعد الاعلان  ونکصتم بعد الاقدام  واشرکتم بعدالایمان بوساً لقوم نکثوا؟

<الا تقاتلون قوما نکثواایمانھم وھموا باخراج الرسول وھم بداٴوکم اول مرة  اتخشونھم فاللّٰہ احق ان تخشوہ ان کنتم موٴمنین >[17]

اٴلا و قد اری ان قد اخلدتم الی الخفض ،وابعدتم من ھو احقّ بالبسط والقبض، ورکنتم الی الدعة،  ونجوتم من الضیق بالسعة فمججتم ما وعیتم ،ودسعتم الذی تسوغتم۔

<فان تکفروا  اٴنتم ومن فی الارض جمیعا  فان اللّٰہ لغنی حمید>[18]

قیام کرتے تھے توتم بھی قیام کرتے تھے ھم حکم دیتے تھے اورتم اطاعت کرتے تھے ۔

یھاں تک کہ اسلام نے رونق پائی اور نعمتیں اور خیرات زیادہ هوئےں، مشرکین کے سر جھک گئے، ان کا جھوٹا وقاروجوش ختم هوگیا،اورکفرکے آتش کدے خاموش هوگئے ، شورش اور شوروغل ختم هوگیا اور دین کا نظام مستحکم هوگیا۔

اے گروہ انصار:  متحیرهوکر کھاںجارھے هو ؟ !  حقائق کے معلوم هونے کے بعد انھیں کیوںچھپاتے هو،اور قدم آگے بڑھانے کے بعد پیچھے کیوں ہٹا رھے هو، اورایمان لانے کے بعد مشرک کیوں هو رھے هو ؟

” بھلا تم ان لوگوں سے کیوں نھیں لڑتے جھنوں نے اپنی قسموں کو توڑ ڈالا ھے اور رسول کا شھر بدر کرنا چاھتے ھیں، اور تم سے پھلے پھل چھیڑ بھی انھوں نے ھی شروع کی تھی کیا تم ان سے ڈرتے هو ،حالانکہ کہ اگر تم سچے ایماندار هو تو تمھیں صرف خدا سے ڈرنا چاہئے ۔“

میں دیکھ رھی هوں کہ تم پستی کی طرف جارھے هو جو شخص لائق حکومت تھا اس کو برکنار کردیا اورتم گوشہ نشینی اختیار کرکے عیش وعشرت میں مشغول هو،زندگی کے وسیع وعریض میدان سے فرار کرکے راحت طلبی کے تنگ وتار ماحول میں پھنس گئے هو، جو کچھ تمھارے اندرتھا اسے ظاھر کردیااور جوپی چکے تھے اسے اگل دیا، ”لیکن آگاہ رهو اگرتم اور روئے زمین پرآباد تمام انسان کافرهوجائیںتو خدا تمھارا محتاج نھیںھے ۔“

اٴلا و قد قلتُ ما قلت علی معرفة منی بالخذلة  التی خامرتکم والغدرة  التی   استشعرتھا   قلوبکم ، و لکنھا  فیضة  النفس ، ونفثة الغیض (الغیظ)و خور القنا وبثّة الصدرِوتقدمة الحجة ۔

فدونکموھا فاحتقبوھا دبرة الظھرنقبة  الخف ،باقیة العار، موسومة بغضب اللّٰہ وشنار الابد ،موصولة بناراللّٰہ  الموقدة التی تطّلع علی  الافئدة ۔فبعین اللّٰہ ماتفعلون <وسیعلم الذین ظلموا ایّ منقلب ینقلبون۔>[19]

وانا ابنة نذیر لکم بین یدی عذاب شدید ، فاعلموا <انّا عاملون وانتظروا انّا منتظرون>[20][21]

اے لوگو!   جو کچھ مجھے کہناچاہئے تھا سوکہہ دیا،  چونکہ میںجانتی هوںکہ تم میری مددنھیںکروگے، تم لوگ جو منصوبے بناتے هو مجھ سے پوشیدہ نھیںھیں، دل میں ایک درد تھا جس کو بیان کردیاتاکہ تم پرحجت تمام هوجائے اب فدک اورخلافت کوخوب مضبوطی سے پکڑے رکھو،لیکن یہ بھی جان لو کہ اس راہ میں بڑی دشواریاں ھیں اور اس”فعل “کی رسوائیاںاورذلتیںھمیشہ تمھارے دامن گیر رھیںگی۔

خدا اپنا غیظ وغضب زیادہ کریگا اوراس کی سزا جہنم هوگی،” خدا تمھارے کردارسے آگاہ ھے بھت جلد ستمگاراپنے کئے هوئے اعمال کے نتائج دیکھ لیں گے“

 اے لوگو!  میں تمھارے اس نبی کی بیٹی هوںجس نے تمھیںخدا کے عذاب سے ڈرایا،اب جو کچھ تم لوگ کرسکتے هو کرو، ھم اس کا ضرور انتقام لیںگے تم بھی منتظر هو ، ھم بھی منتظرھیں۔ [22]
علیٰ اٴثر الخطبة

کان لخطبة الزھراء  سلام الله علیھا اٴثر بالغ ومحرّک لنفوس الناس، سیّما  الانصار منھم، لما تحملہ تلک الخطبة من الواقعیة والصدق والاستناد الی اُسس متنیة قوامھا الکتاب الکریم والسنة النبویة المبارکة، فی بیان مظلومیتھا وفی اشادتھا بفضل اٴمیر الموٴمنین علی علیہ السلام واٴحقّیتہ فی خلافة الرسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم ، ممّا جعل الاٴنصار یھتفون باسم علی علیہ السلام، فاستشعر رجال السقیفة الخطر من ھذہ البادرة، فنادی اٴبوبکر الصلاة جامعة، فاجتمع الناس فاٴرعد و اٴبرق۔

رویٰ الجوھری عن جعفر بن محمد بن عمارة بعدة طرق، قال: لما سمع اٴبوبکر خطبتھا شقّ علیہ مقالتھا، فصعد المنبر وقال:

 ”اٴیّھا الناس، ماھذہ الرِّعة الی کلِّ قالة؟!  ومع کلّ قالة اٴُمنیة، این کانت ھذہ الاٴمانی فی عھد نبیکم؟!

 
خطبہ کے آثار

آپ کے اس خطبہ کا اثرلوگوں پر خاص طور سے انصارپر بھت هوا، کیونکہ یہ خطبہ واقعیت اور صداقت پر مبنی تھا اور اس خطبہ میں قرآن کریم اور سنت نبوی سے دلائل پیش کئے گئے تھے کہ حضرت پر کیا کیا ظلم وستم هوئے، اس خطبہ میں حضرت علی علیہ السلام کی فضیلت بیان کی گئی اور باقاعدہ دلیلوں کے ذریعہ یہ ثابت کیا گیا کہ آپ ھی خلافت رسول کے حقدار تھے، اور جس وقت انصار پر اس خطبہ کا اثر هوا تو حضرت علی کا نام لے لےکر چلانا شروع کیا، چنانچہ یہ دیکھ کر اھل سقیفہ نے خطرہ کا احساس کیا اور ابوبکر نے نماز جامعہ کی طرف بلایا جس پر سب دوڑے هوئے چلے گئے۔

جوھری نے جعفر بن محمد بن عمارہ سے متعدد طریقوںسے روایت کرتے هوئے کھا : جب جناب ابوبکر نے حضرت زھرا سلام اللہ علیھا کا خطبہ سنا تو اس پر بھت گراں گزرا، چنانچہ منبر پر جاکر اس طرح لوگوں سے خطاب کیا :

اٴلا من سمع فلیقل، ومن شھد فلیتکلم، انما هو ثُعالة  شھیدہ ذنبہ، مربّ لکلِّ فتنةٍ، هوالذی یقول: کرّوھاً جذعةً بعد ما ھرمت، یستعینون بالضعفة، و یستنصرون بالنساء، کاٴُمِّ طحال اٴحب اٴھلھا الیھا البغي !!!

اٴلا انی لواٴشاء ان اٴقول لقلت، ولوقلت لبحت، وانی ساکت ماتُرکت۔

ثم التفت الی الاٴنصار فقال: قد بلغنی یا معشر الاٴنصار مقالة سفھائکم، فو الله ان اٴحق الناس بلزوم عھدرسول الله اٴنتم، فقد جاء کم فآویتم ونصرتم، واٴنتم الیوم احق من لزم عھدہ، ومع ذلک فاغدوا علیٰ اٴُعطیاتکم، فانی لست کاشفاً قناعاً، ولا باسطاً ذراعاً ولا لساناً الّا علی من استحق ذلک، والسلام۔

ثم نزل، فانصرفت فاطمة علیھا السلام الیٰ منزلھا۔[23]

”یہ سب کچھ جو تم لوگوں نے سنا ، اور چونکہ ھربات کا ایک مقصد هوتا ھے، اور یہ بات زمانہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں کھاں تھی؟ پس جس نے بھی سنا هو وہ بتائے اور جس نے بھی دیکھا هو وہ گواھی دے، یہ سب کچھ مکروفریب ھے اور اس کا گواہ اس کا شوھر ھے، جو ھر فتنہ کی جڑ ھے، وہ یہ کھتے ھیں کہ یہ لوگ حق وحقیقت کو پانے کے بعد زمان جاھلیت کی طرف پلٹ گئے ، اور وہ بچوں (حسن وحسین(ع)) کے ذریعہ مدد لیتے ھیں اور عورتوں کے سھارے نصرت ومدد چاھتے ھیں جس طرح امّ طحال (زمان جاھلیت میں باغی اور سرکش عورت) سے اس کے اھل خانہ اس کی نازیبا حرکتوں سے خوش هوتے ھیں۔!!

آگاہ رهو کہ اگر میں چاھتا تو کھتا، او راگر کھتا تو تم مبهوت هوکر رہ جاتے، لیکن میں تو اس وقت ساکت بیٹھا هوں۔

اس کے بعد انصار کی طرف متوجہ هوکر کھا:

” اے گروہ انصار ! تم لوگوں میں سے بعض احمقوں کی گفتگومجھ تک پهونچی جو کھتے ھیں: ”ھم عھد رسول اللہ میں زیادہ حقدار تھے، کیونکہ ھم نے تم کو پناہ دی اور تمھاری نصرت کی، اور تم آج اپنے کو زیادہ حقدار سمجھتے هو ، لیکن میں تمھاری باتوں کو چھوڑتا هوں اور ان کا کوئی اثر نھیں لیتا، اور نہ ھی مجھے کسی چیز کا لالچ ھے، مگر یہ کہ جس چیز کا میں مستحق هوں، والسلام“۔

 اس کے بعد منبر سے اتر گیا۔

 اس کی باتیں سن کر جناب فاطمہ وھاں سے اپنے گھر کی طرف روانہ هوگئیں۔

 

قال ابن اٴبی الحدید: قراٴت ھذا الکلام علی النقیب اٴبی یحيٰ جعفر ابن یحيٰ بن اٴبی زید البصري، وقلت لہ:

”بمن یعرض“ ؟

فقال: ”بل یصرّح“

قلت: ”لو صرّح لم اٴساٴلک“

فضحک وقال: ”بعلی بن اٴبی طالب علیہ السلام۔“

قلت: ”ھذا الکلام کلّہ لعلی یقولہ“!!

قال: ”نعم انّہ الملک یا بني۔

قلت: ”فما مقالة الاٴنصار۔؟

قال: ”ھتفوا بذکر علی علیہ ا لسلام، فخاف من اضطراب الاٴمر علیھم، فنھاھم۔ [24]
ابن ابی الحدیدکھتے ھیں:

” حضرت ابوبکر کی اس گفتگو کو میں نے استاد ابو یحیٰ جعفر بن یحیٰ بن ابی زید بصری کے سامنے پڑھا اور سوال کیا کہ اس کلام میں کس کی طرف اشارہ ھے تو انھوں نے کھا کہ اشارہ نھیں ھے بلکہ واضح طور پر بیان ھے، ابن ابی الحدید نے کھا کہ اگر واضح هوتا تو میں آپ سے کیوں سوال کرتا، یہ سن کر ابو جعفر مسکرائے اور کھا :

 یہ سب کچھ حضرت علی (علیہ السلام) کی طرف اشارہ ھے، ابن ابی الحدید بھت تعجب سے کھتے ھیں کہ حضرت ابوبکر نے یہ سب کچھ حضرت علی علیہ السلام کی شان میں کھا ھے ۔

ابو جعفر نے کھا کہ جی ھاں یہ سب کچھ حضرت علی (ع) کی شان میں کھاکیونکہ وہ اس وقت کے خلیفہ اور بادشاہ تھے۔

اس کے بعد میں نے سوال کیا کہ انصار کی گفتگو کیا تھی؟ (جس کی بنا پر جناب ابوبکر نے کھا :       ”تم میں سے بعض احمقوں کی باتیں مجھ تک پهونچی) ،تو ابوجعفر نے کھا انصار نے حضرت علی علیہ السلام کی حمایت میں آواز بلند کی (اور حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں رسول اللہ کی وصیت کو بیان کیا، یہ دیکھ کر جناب ابوبکر ڈرے اور اس کام سے روک دیا“)
 ندبتھا للرسول (ص)

 

قد کان بعد ک انباء وہنبثہ

لو کنتَ شاھدھا لم تکثر الخطْب

 

  انا فقد ناک فقد الا رض وابلھا

 واختل قو مک فاشھدھم فقد نکبوا

 

 

ابدیٰ رجال لنانجویٰ صدورھم

 لمامضیتَ وحالت دونک التُّربُ۔

 

تجہّمتْنَا رجال و استخفَّ بنا

 لما فقدت وکل الارث مغتصب

وکنت بدراً و نوراً  یستضاء بہ

علیک  تنزل  مِن  ذی العز ة الکتب

 

وکان جبریل با لآیا ت یو نسنا

 فقد فقدتَ وکل الخیر محتجب

 

فلیت قبلک کان الموت  صادفنا

 لمّا مضیت وحالت دونک الکثبُ

 

انّا رزئنا بما لم یُرز ذوشجن

  من البریة لا عجم ولا عرب

 

 

 
قبر رسول(ص) پر آپ کے اشعار

 

اے پدر محترم!  آپ کے بعد فتنے رونما هو ئے، طرح طرح کی آوازیں بلندهو ئیں اگر آپ زندہ هو تے تو اس طرح کے اختلافات سامنے نہ آتے ۔

 

آپ ھمارے درمیان سے چلے گئے اور ھمارا حال ا س زمین کی طرح هوگیا ھے جو باران رحمت سے محروم هو گئی هو اورآپ کی قو م وملت میں باھمی خلل واقع هوگیا ھے پس آپ شاھد ھیں اور انکے کارناموں سے چشم پو شی نہ فر ما ئیں

 لیکن ھم پرکچھ لوگوں کا بغض وحسداس وقت آشکار هوا جب آپ ھمارے درمیان سے اٹھ گئے اور منوں مٹی کے نیچے چھپ گئے ۔

 

جب آپ ھمارے درمیان سے اٹھ گئے تو لوگوںمیںسے ایک گروہ نے یہ چال چلی ، ھمارے مقام کو سبک کر دیا ، اور ھماری میراث کو غصب کرلیا۔

 

آپ ایک نو رفروز اں تھے جس سے وہ لوگ فائدہ اٹھاتے رھے آپ ھی وہ شخصیت ھیں کہ جن پر آسمانی کتاب” قرآن “ نازل کی گئی ۔

 

اور ھم کو جناب جبرئیل نے قرآنی آیات سے مانوس کیا اور آپ کے جانے سے ھما رے لئے خیرکے سارے دروازے بندهو گئے ۔

 

اے کاش کہ آپ کے جانے سے قبل ھمکو موت آجاتی ،آپ گئے اور ایک گروہ اپنے با طل مقاصد کو پانے کے لئے تل گیا۔

 

آپ کے جا نے کے بعد ھم نے وہ مصیبتیں دیکھیں جوعرب و عجم میں سے کسی نے نھیں دیکھیں ۔

 
خطبة الزھراء  (س)
بنساء المھاجرین والاٴنصار

 وقال سوید بن غفلة لما مرضت فاطمة الزھراء المرضة التي توفیت فیھا  اجتمعت الیھا نساء المھاجرین والانصار لیعدنھا ،فسلمن علیھا فقلن لھا کیف اصبحت من علتک یابنة رسول اللّٰہ،فحمدت اللّٰہ وصلت علی ابیھا المصطفیٰ(ص) ثم قالت اٴصبحت واللّٰہ عائفة لدنیاکن قالیة لرجالکن لفظتھم بعد اٴن عجمتھم و شناٴتھم بعد ان سبرتھم فقبحا لفلول الحد  واللعب بعد الجد، وقرع الصفاة وصدع القناة  وخطل الآراء وزلل الاٴهواء، <ولبئسما قدمت لھم انفسھم اٴن سخط اللّٰہ علیھم وفی العذاب ھم خالدون>(سورہ مائدہ ، آیت ۸۰۔) ، لا جرم والله لقد قلدتھم ربقتھا وحملتھم اٴوقتھا وشننت علیھم غارتھا فجدعا وعقرا وبعدا  للقوم  الظالمین۔

 
 مدینہ کی عورتوں سے خطاب

سوید بن غفلہ کھتے ھیں کہ جس وقت جناب فاطمہ زھرا (س)مریض هوئیں اور آپ کا مرض اس قدر بڑھا کہ اسی مرض میں اس دنیا سے رحلت کرگئیں، اس وقت مھاجرین اور انصار کی عورتیں بی بی کی عیادت کے لئے آئیں اور جناب سیدہ کو سلام کیا اور آپ کی احوال پرسی کی تو آپ نے ان سے مخاطب هوکر پھلے خداوندعالم کی حمد وثناکی اور اپنے باپ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر دردو وسلام بھیجا اور فرمایا:  ”بخدا میری زندگی اس حال میں ھے کہ میں تمھاری زندگی کو دوست نھیں رکھتی اور تمھارے مَردوں سے بیزار هوں، ان کو آزمانے کے بعد چھوڑ دیا ھے اور ان کی بدنیتوں اور بری عادتوں کی بناپر ان سے دوری اختیار کرلی ھے۔

کتنی بری بات ھے کہ انسان ھدایت یافتہ هونے کے بعد بھی ضلالت وگمراھی کے راستہ پر چلے، حق اور نور وھدایت کو حاصل کرنے کے بعد ظلمتوں اور تاریکیوںمیں جا پھنسے،وائے هو ان لوگوں پر جو حق وحقیقت کی راہ اور پیغمبر اکرم کے بتائے هوئے راستہ کو چھوڑ کر گمراہ هوجائےں! اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ابن عم (علی علیہ السلام) سے کنارہ کشی کرلیں، وہ علی (ع) جو باب مدینة العلم، مظھر تقویٰ وعدالت ، صاحب شجاعت و حقیقت ھیں ۔

ویحھم اٴنّی زعزعوھا عن رواسی الرسالة، وقواعد النبوة والدلالة ومھبط الروح الامین والطبین باٴمور الدنیا والدین< اٴلا ذلک هو الخسران المبین>[25]

وما الذی نقموا من اٴبی الحسن علیہ السلام ا نقموا  منہ واللّٰہ   نکیر سیفہ وقلة مبالاتہ بحتفہ وشدة وطاٴتہ ونکال وقعتہ وتنمرہ فی ذات اللّٰہ عزّ وجلّ وتاللّٰہ لو مالوا عن المحجة اللائحة وزالوا عن قبول الحجة الواضحة لردھم الیھا وحملھم علیھا ولسار بھم سیراً سجحا لایکلم حشاشہ ولا یکل سائرہ ولا یمل راکبہ ولاٴوردھم منھلا نمیرا صافیا رویا فضفاضاً  تطفح ضفتاہ ولا یترنق جانباہ ولاٴصدرھم بطانا ونصح لھم سرا واعلانا، ولم یکن یتحلی من الدنیا بطائل ولا یحظی منھا بنائل غیر ري الناھل وشبعة الکافل ولبان لھم الزاھد من الراغب والصادق من الکاذب۔

” کس قدر برا ھے (دنیا میں بھی) خدا ان پر غضبناک هوا اور آخرت میں بھی ھمیشہ عذاب میں رھےں گے“

واقعاً کس قدر تعجب کا مقام ھے :

 ان لوگوں نے کس طریقہ سے میرے ابن عم علی ابن ابی طالب (ع) کو تنھا چھوڑکر خلافت کی مھار دوسروں کے گلے میں ڈال دی اور آپ کی مخالفت کرکے جداهوگئے، اور ان سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔

واقعاً افسوس کا مقام ھے کہ میرے ابن عم کو خانہ نشین بنادیا اور ان کے قتل کے درپے هوگئے اور واقعاً تعجب ھے کہ انھوں نے رسالت کے ستون اور بنیاد کو چھوڑ دیا، وحی کی جائے نزول کو ترک کردیا اور دنیا کے لئے دین میں اختلاف کرڈالا، ”آگاہ هوجاؤ کہ یھی لوگ خسارے میں ھیں۔“

 خدا کی قسم ! ان سے دوری کی وجہ ان کی تلوار سے خوف ووحشت تھی،کیونکہ وہ جانتے ھیں کہ حضرت علی علیہ السلام قوانین اسلامی کو جاری کرنے اور حق وحقیقت کے فیصلہ کرنے میں ذرہ برابر بھی رعایت نھیں کرتے ھیں، اور تمام تر شدت اور کمالِ شجاعت واستقامت سے خداوندعالم کے احکامات کو تمام چیزوں میں جاری کرتے ھیں۔

 اور اگر وہ لوگ حضرت کی پیروی کرتے تو وہ راہ مستقیم اور ھمیشگی سعادت اور دائمی خوشبختی کی طرف ھدایت کرتے، اور دیکھتے کہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام ان کو بھترین طریقہ سے سیراب کرتے اور ان کو بھوک سے نجات دیتے،اور ان کی مشکلات کو دور کرتے اس طرح سے لوگوں کے ساتھ برتاؤ کرتے کہ صادق اور کاذب (جھوٹے) میں تمیز هوجاتی اور زاھد اور لالچی میں پہچان هوجاتی۔

 <ولو ان اھل القریٰ آمنوا واتقوا لفتحنا علیھم برکات من السماء والاٴرض ولکن کذبوا فاٴخذناھم بما کانوا یکسبون>[26]

< والذین ظلموا( من هوٴلاء)  سیصیبھم سیئات ما کسبوا وماھم بمعجزین> [27]

 اٴلا ھلم فاستمع وما عشت اراک الدھر عجبا، وإن تعجب فعجب قولھم لیت شعری الی ایّ سناد استندوا وإلی اٴی عماد  اعتمدوا  وباٴیة عروة تمسکوا وعلی اٴیة ذریة قدموا واحتنکوا <لبئس المولی ولبئس العشیر۔>  وبئس للظالمین بدلا۔[28]

 استبدلوا و اللّٰہ الذنابیٰ بالقوادم والعجز بالکاھل فرغما لمعاطس قومٍ <یحسبون انھم یحسنون صنعا۔>[29] <  اٴلا انھم ھم المفسدون ولکن لا یشعرون۔>[30] ویحھم  < اٴ فمن یھدی إلی الحق اٴحق اٴن یتبع اٴم من لا یھدِّی إلا اٴن یھدی فما لکم کیف تحکمون۔>[31]

”اور اگر ان بستیوں کے رہنے والے ایمان لاتے او رپر ھیزگار بنتے تو ھم ان پر آسمان وزمین کی برکتوں (کے دروازے) کھول دیتے مگر (افسوس) ان لوگوں نے (ھمارے پیغمبروں کو) جھٹلایا تو ھم نے بھی ان کی کرتوتوں کی بدولت ان کو (عذاب میں) گرفتار کیا۔ “

”اور جن لوگوںنے نافرمانیاں کی ھیں انھیں بھی اپنے اپنے اعمال کی سزائیں بھگتنی پڑیں گی اور یہ لوگ خدا کو عاجز نھیں کرسکتے۔“

آگاہ هوجاؤ کہ مجھے زمانہ پر تعجب نھیں ھے اور ا گرتمھیں تعجب ھے تو دیکھ لو کہ (حق سے منحرف ان) لوگوں نے کس راستہ کا انتخاب کیا ، کس دلیل کے ذریعہ استدلال کیا اور کن باتوں پر بھروسہ کیا، اور کس بل بوتہ پر اقدام کیا اور غالب هوگئے، کس کا انتخاب کیا اور کس (عظیم شخصیت) کو چھوڑ دیا”بے شک ایسا مالک بھی برا ھے اور ایسا رفیق بھی براھے۔“اور ظالمین کو برا ھی بدلا دیا جائے گا۔

 تم لوگوں نے کمزوروں کو طاقتور بنادیا اور کمزوری کو طاقت سے بدل دیا، مغلوب اور ذلیل وہ قوم”جو اس خیال خام میں ھے کہ وہ یقینا اچھے اچھے کام کررھے ھیں“

اما لعمری لقد لقحت فنظرة ریثما تنتج، ثم احتلبوا ملٴ القعب دما عبیطا وذعافا مبیدا، ہنالک یخسر المبطلون ویعرف التالون غب ما اٴسس الاٴولون ثم طیبوا عن دنیاکم  نفسا واطمئنوا للفتنة جاشا واٴبشروا بسیف صارم، وسطوة معتد غاشم وبھرج دائمٍ شامل واستبداد من الظالمین یدع فیاٴکم زھیدا وجمعکم حصیدا، فیا حسرتی لکم واٴنی بکم وقد عمیت علیکم،< اٴ نلزمکموھا واٴنتم لھا کارهون>[32]

 قال سوید بن غفلة فاٴعادت النساء قولھا (ع) علی رجالہن فجاء الیھا قوم من المھاجرین والانصار معتذرین وقالوا یا سیدة النساء لوکان اٴبو الحسن ذکر لنا ھذا الاٴمر من قبل اٴن یبرم العھد ویحکم العقد لما عدلنا عنہ إلی غیرہ، فقالت علیھا السلام الیکم عنی، فلا عذر بعد تعذیرکم ولا امر بعد تقصیرکم“۔[33]

”بے شک یھی لوگ فسادی ھیں لیکن سمجھتے نھیں“ ۔ ”جو تمھیں دین حق کی راہ دکھاتا ھے زیادہ حقدار ھے کہ اس کے حکم کی پیروی کی جائے یا وہ شخص جو (دوسرے) کی ھدایت تو درکنار خود ھی جب تک دوسرا اس کو راہ نہ دکھائے راہ دیکھ نھیں پاتا ،تم لوگوں کو کیا هوگیا ھے تم کیسے حکم لگاتے هو۔“

اپنی جان کی قسم ان لوگوں کے کارناموں کے نتائج برے نکلے جس کی بناپر انھیں شدید فتنہ وفساد سے دوچار هونا پڑا، اور زھر ھلاھل پینا پڑا ، پس باطل خسارے میں ھیں اور باطل چھرے بے نقاب هوگئے، آخر کار اس فتنہ وفساد کی بنیاد ڈالنے والے خودھی اس کا مزہ چکھیں گے،وہ یہ فتنہ برپا کرکے مطمئن هوگئے، کیونکہ ظالمین نے ھی اس آگ کو بھڑکایا، ننگی تلواریں چھوڑیں، یھاں تک ایک دوسرے پر غلبہ کرنے لگے، اور تمھارے گروہ کو حقیر سمجھا گیا اور تمھارا سب کچھ برباد کردیا گیا، واقعاً افسوس کا مقام ھے، خدا تمھاری ھدایت کرے، تمھارے دل ٹیڑھے هوگئے ھیں، ”تو کیا میں اس کو (زبر دستی) تمھارے گلے میں منڈھ سکتا هوں“۔

سوید بن غفلہ کھتے ھیں کہ یہ خطبہ سن کر عورتیں واپس چلی گئیں اور سب کچھ اپنی مردوں سے بیان کیا تو ان میں سے مھاجرین وانصار کے بعض لوگ عذر خواھی کے لئے بی بی دوعالم کے پاس آئے اور کھا کہ اے سیدة نساء العالمین، اگر ھماری بیعت سے پھلے ابوالحسن نے ھم کو یہ سب کچھ بتایا هوتا تو پھر ھم ایسا نہ کرتے اور آپ سے دور نہ هوتے، (یعنی ثقیفہ میں بیعت نہ کرتے) ۔

تب حضرت زھرا سلام اللہ علیھانے فرمایا: تم لوگ یھاں سے چلے جاؤ کیونکہ تمھاری خطائیں قابل بخشش نھیں ھیں۔

 

 تمت بالخیر
 

 

[1] سورہ آل عمران آیت ۱۰۲

[2] سورہ فاطر-آیت ۲۸

[3] سورہ توبہ آیت ۱۲۸ 

[4] سورہ مائدہ آیت ۶۴ 

[5] <اٴلا فی الفتنة سقطوا وان جہنم لمحیطة بالکافرین۔> (سورہ توبہ ۴۹)

[6] سورہ کہف آیت ۵۰

[7] سورہ آل عمران آیت ۸۵

[8] سورہ مائدہ  آیت ۵۰

[9] سورہ نمل ،آیت۱۶

[10] سورہ مریم ،آیت ۴ و۶

[11] سورہ انفال،آیت ۷۵

[12] سورہ نساء، آیت

[13] سورہ بقرہ،آیت ۱۸۰ 

[14] سورہ انعام، آیت ۶۷

[15] سورہ ہود آیت۳۹

[16] سورہ آل عمران آیت۱۴۴۔

[17] سورہ توبہ، آیت ۱۲

[18] سورہ ابراھیم ،آیت ۸

[19] سورہ شعراء آیت ۲۲۷

[20] سورہ ہود، آیت ۱۲۱و۱۲۲ 

[21] احتجاج شیخ طبرسی، ص ۷۹؛دلائل الامامة، ص ۳۰؛ کشف الغمہ، ج۱، ص۱۸۰؛ بحار الانوار، ج۲۹، ص ۲۳۰؛ شرح نھج البلاغہ، ابن ابی الحدید، ج۱۶، ص ۲۱۱۔

[22] احتجاج شیخ طبرسی، ص ۷۹؛دلائل الامامة، ص ۳۰؛ کشف الغمہ، ج۱، ص۱۸۰؛ بحار الانوار، ج۲۹، ص ۲۳۰؛ شرح نھج البلاغہ، ابن ابی الحدید، ج۱۶، ص ۲۱۱۔

[23] دلائل الامامة ۱۲۳، شرح ابن ابی الحدید ج۱۶ ص ۲۱۵۔

[24] شرح ابن ابی الحدید جلد ۱۶، ص۲۱۵۔

[25] سورہ زمر آیت ۱۵

[26] سورہ اعراف آیت ۶۹

[27] ،سورہ زمر آیت ۵۱

[28]  سورہ حج آیت ۱۳

[29] سورہ کہف آیت ۱۰۴

[30] سورہ بقرہ آیت ۱۲۔

[31] سورہ یونس آیت ۳۵۔

[32]  سورہ ہود آیت ۲۸

[33] احتجاج شیخ طبرسی، ص ۷۹؛دلائل الامامة، ص ۳۰؛ کشف الغمہ، ج۱، ص۱۸۰؛ بحار الانوار، ج۲۹، ص ۲۳۰؛ شرح نھج البلاغہ، ابن ابی الحدید، ج۱۶، ص ۲۱۱۔


source : http://www.islaminurdu.com/chapter.php?chapterID=1758
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

عقل کا استعمال اور ادراکات کا سرچشمہ
عید مباہلہ
آیہٴ” ساٴل سائل۔۔۔“ کتب اھل سنت کی روشنی میں
انہدام جنت البقیع تاریخی عوامل اور اسباب
ماہ رمضان کے دنوں کی دعائیں
جمع بین الصلاتین
ہم اور قرآن
نہج البلاغہ کی شرح
شفاعت کا مفہوم
شب قدر کو کیوں مخفی رکھا گیا؟

 
user comment