اردو
Friday 29th of March 2024
0
نفر 0

امام زين العابدين (ع) كي سوانح عمري

125

ولادت

آسمان ولايت كے چوتھے درخشاں ستارے امام على بن الحسين _كى پيدائشے پانچ شعبان 38 ھ كو شہر مدينہ ميں ہوئي_ 1

سيد الشہداء حضرت امام حسين _آپ كے والد اور ايران كے بادشاہ يزدگرد كى بيٹى آپ كى مادر گرامى ہيں_ 2 آپ كى ولادت اميرالمؤمنين (ع) كى شہادت سے دو سال پہلے ہوئي نقريباً 23 برس تك اپنے والد بزرگوار كے ساتھ رہے_ 3

اخلاقى خصوصيتيں

امام زين العابدين (ع)انسانيت كى خصوصى صفات اور نفس كے كمالات كا مكمل نمونہ تھے_ مكارم اخلاق اور ستم رسيدہ و فقراء كى دستگيرى ميں آپ كے مرتبہ كا كوئي نہ تھا_ اب آپ كے اخلاق و عادات كا تذكرہ كيا جاتا ہے_

1_ آپ(ع) سے متعلق افراد ميں سے ايك شخص نے لوگوں كے مجمع ميں آپ كى شان ميں ناروا كلمات كہے اور چلاگيا_ امام چند لوگوں كے ساتھ اس كے گھر گئے اور فرمايا تم لوگ ہمارے ساتھ چلو تا كہ ہمارا بھى جواب سن لو_

راستہ ميں آپ مندرجہ ذيل آيت، جس ميں كچھ مؤمنين كے اوصاف عالى كا تذكرہ ہے، پڑھتے جاتے تھے_

'' و الكاظمين الغيظ و العافين عن الناس و اللہ يحب

 

126

المحسنين'' 4

'' وہ لوگ جو اپنا غصہ پى كر لوگوں سے درگذر كرتے ہيں اور خدا نيكو كاروں كو دوست ركھتا ہے''_

جب اس آدمى كے گھر كے دروازہ پر پہنچے اور امام (ع) نے اس كو آواز دى تو وہ اس گمان ميں اپنے كو لڑنے كے لئے تيار كركے باہر نكلا كہ امام (ع) گذشتہ باتوں كا بدلہ لينے آئے ہيں_ حضرت سيد سجاد (ع) نے فرمايا: ميرے بھائي تو تھوڑى دير پہلے ميرے پاس آيا تھا اور تو نے كچھ باتيں كہى تھيں، جو باتيں تونے كہى ہيں اگر وہ ميرے اندر ہيں تو ميں خدا سے بخشش كا طلبگار ہوں اور اگر نہيں ہيں تو خدا سے ميرى دعا ہے كہ وہ تجھے معاف كردے_

امام زين العابدين (ع)كى غير متوقع نرمى نے اس شخص كو شرمندہ كرديا وہ قريب آيا اور امام (ع) كى پيشانى كو بوسہ ديكر كہا :'' ميں نے جو باتيں كہيں وہ آپ ميں نہيں تھيں اور ميں اس بات كا اعتراف كرتا ہوں كہ جو كچھ ميں نے كہا تھا ميں اس كا زيادہ سزاوار ہوں''_ 5

2_ زيد بن اسامہ حالت احتضار ميں بستر پر پڑے ہوئے تھے سيد سجاد(ع) ان كى عيادت كے لئے ان كے سرہانے تشريف لائے ،ديكھا كہ زيد رو رہے ہيں آپ نے پوچھا آپ كيوں رو رہے ہيں، انہوں نے كہا پندرہ ہزار دينار ميرے اوپر قرض ہے اور ميرا مال ميرے قرض كے برابر نہيں ہے_ امام (ع) نے فرمايا: '' مت رويئے آپ كے قرض كى ادائيگى ميرے ذمہ ہے''_ پھر جس طرح آپ نے فرمايا تھا اسى طرح ادا بھى كرديا_ 6

3_ راتوں كو امام زين العابدين (ع)مدينہ كے بے سہارا اور ضرورت مندوں ميں اس طرح روٹياں تقسم كرتے تھے كہ پہچانے نہ جائيں اور ان لوگوں كى مالى امداد فرماتے تھے_ جب آپ كا انتقال ہوگيا تب لوگوں كو پتہ چلا كہ وہ نامعلوم شخصيت امام زين العابدين (ع)كى تھي_ آپ كى وفات كے بعد يہ معلوم ہوا كہ آپ ايك سو خاندانوں كا خرچ برداشت كرتے تھے اور ان لوگوں كو يہ نہيں معلوم تھا كہ ان كے گھر كا خرچ چلانے والے امام زين العابدين (ع) ہيں_ 7

 

127

4_ امام محمد باقر _فرماتے ہيںكہ:'' ميرے پدر بزرگوار نماز ميں اس غلام كى طرح كھڑے ہوتے تھے جو اپنے عظيم بادشاہ كے سامنے اپنے پيروں پر كھڑا رہتا ہے_ خدا كے خوف سے لرزتے رہتے اور ان كا رنگ متغير ہوجاتا تھا اور نماز كو اس طرح ادا كرتے تھے كہ جيسے يہ ان كى آخرى نماز ہو_ 8

حضرت سجاد(ع) كى عظمت

آپ كى شخصيت اور عظمت ايسى تھى كہ دوست دشمن سبھى متاثر تھے_

يزيد ابن معاويہ نے واقعہ '' حرّہ'' 9 كے بعد حكم ديا كہ تمام اہل مدينہ غلام كے عنوان سے اس كى بيعت كريں اس حكم سے اگر كوئي مستثنى تھا تو وہ صرف امام على بن الحسين _تھے_ 10

ہشام بن عبدالملك _ اموى خليفہ _ حج ادا كرنے كے لئے مكہ آيا تھا، طواف كے وقت لوگوں كا ہجوم ايسا تھاوہ حجر اسود كااستلام نہ كرسكا11 مجبوراً ايك طرف بيٹھ گيا تا كہ بھيڑ كم ہوجائے_ اسى وقت امام زين العابدين (ع)مسجد الحرام ميں داخل ہوئے_ اور طواف كرنے لگے لوگوں نے امام (ع) كے لئے راستہ چھوڑ ديا_ آپ نے بڑے آرام سے حجر اسود كو بوسہ ديا _ہشام آپ كے بارے ميں لوگوں كا احترام ديكھ كر بہت ناراض ہوا_ شام كے رہنے والوں ميں سے ايك شخص نے ہشام سے پوچھا كہ يہ كون تھے جن كو لوگ اتنى عظمت دے رہے تھے؟ ہشام نے اس خوف سے كہ كہيں اس كے ساتھ والے امام (ع) كے گرويدہ نہ ہو جائيں جواب ديا كہ :'' ميں ان كو نہيں پہچانتا''

حريت پسند مشہور شاعر فرزدق بے جھجك كھڑے ہوگئے اور كہا'' ميں ان كو پہچانتا ہوں'' اس كے بعد ايك طويل قصيدہ امام زين العابدين (ع) كى مدح و عظمت اور تعارف ميں پڑھ ڈالا_ اشعار اتنے مناسب اور ہشام كے لئے ايسا طماچہ تھے كہ اموى خليفہ شدّت ناراضگى كى بنا پر ردّ عمل پر آمادہ ہوگيا_اس نے حكم ديا كہ فرزدق كو قيد خانہ بھيجديا جائے_

 

128

امام(ع) جب اس واقعہ سے مطلع ہوئے تو آپ نے صلہ كے طور پر فرزدق كے پاس كچھ بھيجا فرزدق نے ان درہموں كو واپس كرديا اور كہلوا بھيجا كہ ميں نے يہ اشعار خدا و رسول(ص) كى خاطر پڑھے تھے_ امام (ع) نے فرزدق كے خلوص نيت كى تصديق كى اور دوسرى بار پھر وہ درہم فرزدق كو بھيجے اور ان كو قسم دى كہ قبول كرليں_ فرزدق نے ان كو قبول كرليا اور مسرور گيا_ يہاں چند اشعار كا ترجمہ نمونہ كے طور پر پيش كرتے ہيں:_

1_ '' اے سوال كرنے والے تو نے مجھ سے جود و سخا اور بلندى كے مركز كا پتہ پوچھا ہے، تو اس كا روشن جواب ميرے پاس ہے_''

2_'' يہ وہ ہے كہ مكہ كى سرزمين جس كے نقش قدم كو پہچانتى ہے، خانہ كعبہ ،حرم خدا اور حرم سے باہر كى زمين پہچانتى ہے_''

3_ '' يہ اس كے فرزند ہين جو بہترين خلائق ہيں، يہ پرہيزگار، پاكيزہ، اور بلندحشم ہيں''

4_'' يہ وہ ہيں كہ پيغمبر(ص) گرامى '' احمد(ص) '' جن كے جدہيں''_

5_ ''اگر ركن جان جاتا كہ اس كو بوسہ دينے كيلئے كون آرہا ہے تو وہ بےتاب ہوكر اپنے كو زمين پر گرا ديتا تا كہ اس كى خاك پاكو چوم لے''_

6_'' ان بزرگوار كا نام '' على (ع) '' ہے پيغمبر (ص) خدا ان كے جد ہيں_ ان كى روشنى سے امتوں كى راہنمائي ہوتى ہے ...'' 12

امام سجاد (ع) اور پيغام عاشورائ

واقعہ كربلا كے بعد امام حسين(ع) كے بيٹوں ميں سے صرف آپ ہى زندہ بچے تھے_ اپنے پدر عاليقدر كى شہادت كے بعد دسويں محرم 61 ھ كو آپ(ع) نے امامت و ولايت كا عہدہ سنبھالا اور شہادت كے دن تك يزيد بن معاويہ، معاويہ بن يزيد، مروان بن حكم، عبدالملك بن مروان اور

 

129

وليد بن عبدالملك جيسے زمامداران حكومت كا زمانہ آپ(ع) نے ديكھا_

آپ(ع) كى امامت كا دور اور معاشرہ ميں حكومت كرنے والے اس زمانہ كے سياسى حالات تمام ائمہ كى زندگى ميں پيش آنے والے حالات سے زيادہ دشوار اور حساس تھے _ سيرت و روش پيغمبر(ص) سے انحراف، امام زين العابدين (ع)كے زمانہ ميں اپنے عروج پر تھا_ اور اس كى شكل بالكل صاف نظر آتى تھي_

امام زين العابدين (ع)كى روش ان كى امامت كے زمانہ ميں دو حصوں ميں تقسيم كى جاسكتى ہے_

الف : اسيرى كا زمانہ ب: اسيرى كے بعد مدينہ كى زندگي

الف:كربلا كے جاں گداز واقعہ ميں امام زين العابدين (ع)اپنے بزرگوار كے ساتھ تھے_ خدا كے لطف و كرم نے دشمن كے گزند سے محفوظ ركھا ليكن باپ كى شہادت كے بعد اسير ہوگئے اور دوسرے لوگوں كے ساتھ كوفہ اور شام تشريف لے گئے_

اس ميں كوئي شك نہيں كہ اہل بيت امام حسين (ع) كا اسير ہونا _ آپ كے مقدس انقلاب كو كاميابى تك پہنچانے ميں بڑا مؤثر ثابت ہوا_ چوتھے امام (ع) نے اسيرى كے زمانہ ميں ہرگز تقيہ نہيں كيا اور كمال بردبارى اور شہامت كے ساتھ تقريروں اور خطبوں ميں واقعہ كربلا كو لوگوں كے سامنے بيان فرمايا اور حق و حقيقت كا اظہار كرتے رہے_ مناسب موقع پر خاندان رسالت كى عظمت كو لوگوں كے كانوں تك پہنچاتے رہے، اپنے پدربزرگوار كى مظلوميت اور بنى اميہ كے ظلم و ستم اور بے رحمى كو لوگوں كے سامنے واضح كرتے رہے_

امام زين العابدين (ع)با وجود اس كے كہ اپنے باپ كى شہادت كے وقت بيمار تھے، باپ ،بھائيوں اور اصحاب كى شہادت پر دل شكستہ اور رنجيدہ بھى تھے ليكن پھر بھى يہ رنج و آلام آپ كے فرائض كى انجام دہى اور خون آلود انقلاب كربلا كے تحفظ ميں ركاوٹ نہ بن سكے_ آپ نے لوگوں كے افكار كو روشن كرنے كے لئے ہر مناسب موقع سے فائدہ اٹھايا_

 

130

كوفہ ميں

اسيروں كا قافلہ كوفہ پہنچا _ جب لوگ جناب زينب (ع) اور ان كى بہن ام كلثوم(ع) كے خطبوں سے پشيمان ہو كر رونے لگے تو امام زين العابدين (ع) نے اشارہ كيا كہ مجمع خاموش ہوجائے پھر پروردگار كى حمد و ثنا اور پيغمبر(ص) پر درود و سلام كے بعد آپ(ع) نے فرمايا:

'' اے لوگو ميں على بن الحسين (ع) ہوں، ميں اس كا فرزند ہوں كہ جس كو فرات كے كنارے بغير اس كے كہ انہوں نے كسى كا خون بہايا ہو يا كسى كا حق ان كى گردن پر ہو، ذبح كرديا گيا_ ميں اس كا فرزند ہوں جس كا مال شہادت كے بعد لوٹ ليا گيا اور جس كے خاندان كو اسير بنا كر يہاں لايا گيا_ لوگو كيا تمہيں ياد ہے كہ تم نے ميرے باپ كو خط لكھ كر كوفہ بلايا اور جب وہ تمہارى طرف آئے تو تم نے ان كو قتل كرديا؟ قيامت كے دن پيغمبراكرم(ص) كے سامنے كس منہ سے جاؤگے؟ جب وہ تم سے فرمائيں گے كہ '' كيا تم نے ميرے خاندان كو قتل كرديا اور ميرى حرمت كى رعايت نہيں كى لہذا تم ميرى امت ميں سے نہيں ہو''_ 13

حضرت امام زين العابدين (ع) كى تقرير نے طوفان كى طرح لوگوں كو ہلا كر ركھ ديا_ ہر طرف سے گريہ و زارى كى آوازيں آنے لگيں، لوگ ايك دوسرے كو ملامت كرنے لگے كہ تم ہلاك اور بدبخت ہوگئے اور حالت يہ ہے كہ تم كو خود ہى نہيں معلوم_

امام حسين (ع) كے اہل حرم كو ابن زياد كے دربار ميں لے جايا گيا اور جب ابن زياداور امام زين العابدين (ع)كے درميان گفتگو ہوئي تو آپ(ع) نے نہايت يقين اور شجاعت كے ساتھ ہر موقع پر نہايت دنداں شكن جواب ديا جس سے ابن زياد ايسا غضب ناك ہوا كہ اس نے امام (ع) كے قتل كا حكم ديديا_

اس موقع پر جناب زينب سلام اللہ عليہا نے اعتراض كيا اور فرمايا كہ :'' اگر تم على ابن الحسين (ع) كو قتل كرنا چاہتے ہو تو ان كے ساتھ مجھے بھى قتل كردو''_ امام (ع) نے اپنى پھوپھى سے فرمايا:''آپ

 

131

كچھ نہ كہيں ميں خود اس كا جواب دے رہا ہوں''_ اس كے بعد آپ(ع) نے ابن زياد كى طرف رُخ كيا اور فرمايا:'' اے زياد كے بيٹے كيا تم مجھے قتل كرنے كى دھمكى دے رہے ہو كيا تم يہ نہيں جانتے كہ قتل ہوجانا ہمارى عادت اور شہادت ہمارى كرامت ہے؟ 14

شام ميں

ايك ہى رسن ميں اہل بيت (ع) كے چند دوسرے افراد كے ساتھ امام (ع) كو بھى باندھا گيا تھا اسى حالت ميں امام كو شام ميں يزيد كے دربار ميں لے جايا گيا_ امام (ع) نے نہايت شہامت اور دليرى كے ساتھ يزيد سے خطاب فرمايا: اے يزيد اگر پيغمبر(ص) مجھ كو اس حالت ميں رسن بستہ ديكھ ليں تو، تو ان كے بارے ميں كيا خيال كرتا ہے؟ 15 (وہ كيا كہيں گے)_

امام زين العابدين (ع)كے اس چھوٹے سے جملہ نے حاضرين پر اتنا اثر كيا كہ سب رونے لگے _ 16 امام (ع) نے جب يزيد سے گفتگو كى تو ايك نشست ميں اس نے قتل كى دھمكى دي_ امام (ع) نے اس كے جواب ميں فرمايا: اسيرى سے آزاد ہونے والے بنى اميہ جيسے كبھى بھى قتل انبياء و اوصياء كا حكم نہيں دے سكتے مگر يہ كہ اسلام سے خارج ہوجائيں اور اگر تم ايسا ارادہ ركھتے ہو تو كسى صاحب اطمينان شخص كو ميرے پاس بھيجو تا كہ ميں اس سے وصيت كردوں اور اہل حرم كو اس كے سپرد كردوں _ 17

ايك دن شام كى جامع مسجد ميں يزيد نے ايك اہم نشست كا انتظام كيا اور خطيب سے كہا كہ منبر پر جاكر زين العابدين (ع) كے سامنے اميرالمؤمنين (ع) اور امام حسين _كو برا بھلا كہے اس كرايہ كے خطيب نے ايسا ہى كيا_

امام سجاد(ع) نے بلند آواز ميں فرمايا: '' وائے ہو تجھ پر اے خطيب تونے خالق كى ناراضگى كے بدلے مخلوق ( يزيد) كى خوشنودى خريدى اور اس طرح تم دوزخ ميں اپنا ٹھكانہ بنا رہے ہو_ پھر

 

132

يزيد كى طرف مخاطب ہوئے اور فرمايا ''تو مجھے بھى اسى لكڑى ( منبر) پر جانے دے اور ايسى بات كہنے دے جس سے ميں خدا كو خوش كروں اور وہ حاضرين كے لئے اجر و ثواب كا باعث ہے''_ يزيد نے پہلے تو اجازت نہيں دى ليكن لوگوں كے اصرار كے جواب ميں بولا كہ '' اگر يہ منبر پر جائيں گے تو مجھ كو اور خاندان ابوسفيان كو ذليل كئے بغير منبر سے نيچے نہيں اتريں گے'' لوگوں نے كہا كہ :'' يہ كيا كرسكتے ہيں؟ يزيد نے كہا كہ '' يہ وہ خاندان ہے جس نے علم ودانش كو بچپنے سے دودھ كے ساتھ پيا ہے''_ لوگوں نے بہت اصرار كيا تو يزيد نے مجبوراً اجازت دے دي، امام(ع) منبر پر تشريف لے گئے اور پيغمبر(ص) پر درود و سلام بھيجنے كے بعد فرمايا:

'' اے لوگو خدا نے ہم كو علم، بردباري، سخاوت، فصاحت، دليرى اور مؤمنين كے دلوں ميں ہمارى دوستى عطا كى ہے ... پيغمبر(ص) ہم ميں سے ہيں_ اس امت كے صديق حضرت اميرالمؤمنين علي(ع) ہم ميں سے ہيں،جعفر طيّار ہم ميں سے ہيں، حمزہ سيدالشہداء ہم ميں سے ہيں، امام حسن اور امام حسين عليھما السلام پيغمبر(ص) كے دونوں نواسے ہم ميں سے ہيں_

ميں فرزند مكہ و منى ، فرزند زمزم و صفا ہوں، ميں اس كا بيٹا ہوں جس نے حجر اسود كو عبا ميں ركھ كر اٹھايا_ 18

ميں اس بہترين خلائق شخص كا بيٹا ہوں جس نے احرام باندھا، طواف و سعى كي، حج بجالايا ... ميں خديجة الكبرى كا بيٹا ہو، ميں فاطمہ زہراء (ع) كا بيٹا ہو، ميں اس كا بيٹا ہوں جو اپنے خون ميں غوطہ زن ہوا، ميں اس حسين(ع) كا بيٹا ہوں جس كو كربلا ميں قتل كر ڈالا گيا''_

لوگوں ميں كھلبلى مچ گئي اور امام (ع) كى طرف ديكھ رہے تھے_ آپ(ع) ہر جملہ كے ساتھ بنى اميہ كى حقيقت سے پردہ اٹھاتے جا رہے تھے اور اموى گروہ كى كثيف ماہيت كو آشكار كرتے اور اپنے خاندان كى عظمت اور شہادت حسين _كى زيادہ سے زيادہ قدر و قيمت لوگوں كے سامنے نماياں كرتے جا رہے تھے، رفتہ رفتہ لوگوں كى آنكھيں آنسووںسے ڈبڈبا گئيں، گريہ گلو گير ہوگيا_ پھر ہر گوشہ سے بے تابانہ رونے كى آواز بلند ہوئي_ يزيد كو ڈر لگنے لگا اور امام (ع) كى تقرير كو روكنے كے

 

133

لئے اس نے مؤذن كو آذان دينے كا حكم ديا، مؤذن جب '' الشہد انّ محمداً رسول اللہ'' پر پہنچا تو آپ نے عمامہ سر سے اتارليا اور فرمايا:

'' اے مؤذن اسى محمد(ص) كى قسم ذرا ٹھہر جا'' _ پھر يزيد كى طرح رخ كركے فرمايا:'' اے يزيد يہ رسول اكرم(ص) ميرے جد ہيں يا تيرے؟ اگر تم كہو كہ تمہارے جد ہيں تو سب جانتے ہيں كہ يہ جھوٹ ہے اور اگر تم يہ كہتے ہو كہ ميرے جد ہيں تو پھر ان كى عترت كو تم نے كيوں قتل كيا ان كے اموال كو كيوں تاراج كيا اور ان كے خاندان كو تم نے كيوں اسير كرليا؟

اے يزيد تو ان تمام افعال كے باوجود محمد(ص) كو پيغمبر خدا جانتا ہے اور قبلہ كى طرف رخ كركے كھڑا ہوتا ہے، نماز پڑھتا ہے، وائے ہو تجھ پر كہ ميرے جد و پدر قيامت ميں تيرا گريبان پكڑيںگے''_

يزيد نے مؤذن كو حكم ديا كہ نماز كے لئے اقامت كہے، ليكن لوگ بہت ناراض تھے يہاں تك كہ كچھ لوگوں نے نماز بھى نہيں پڑھى اور مسجد سے نكل گئے_ 19

شام ميں امام (ع) كى تقريريں اس بات كا باعث بنى كہ يزيد قتل امام (ع) كا قصد ركھنے كے باوجود اس بات پر مجبور ہوا كہ آپ(ع) كو اور تمام اہل بيت(ع) كو مدينہ واپس كردے_

روح مبارزہ و جہاد كى بيداري

اسيرى كى تمام مدت ميں امام زين العابدين (ع)بہت سے لوگوں كے تصور كے برخلاف جو كہ آپ كو شكست خوردہ سمجھتے تھے، ہر محفل و مجلس ميں اپنى اور اپنے الد كى كاميابى اور بنى اميہ كے گروہ كى شكست كے بارے ميں تقرير كرتے تھے_

دوسرى طرف آپ(ع) نے اس بات كى كوشش كى كہ اپنے خاندان كى عظمتوں اور خصوصيتوں اور بنى اميہ كے ظلم و جور كے بيان كے ذريعہ مسلمانوں كى انقلابى فكر كو بيدار كريں اور گناہ بنى اميہ سے

 

134

نفرت كا احساس اور انجام پا جانے والے گناہوں كے جبران كى ضرورت كو لوگوں كے ضمير و وجدان ميں زندہ كريں_

ابھى زيادہ دن نہيں گذرے تھے كہ اس مثبت رويّہ كى وجہ سے اموى سلطنت كے خلاف عراق و حجاز ميں انقلاب كا پرچم بلند ہوگيا اور ہزاروں افراد خون حسين (ع) كا انتقام لينے كے لئے اٹھ كھڑے ہوئے_ 20

مدينہ واپسى كے بعد

اسيرى كے دن گذرجانے كے بعد امام سجاد (ع) مدينہ واپس آگئے اور معاشرہ پر حكومت كرنے والى سياست كى حالت بھى بدل گئي_ بنى اميہ كى حكومت اور سياسى روش كے مقابل امام (ع) كا رويہ بھى بدلا_

آپ(ع) كى امامت كا سارا زمانہ اس وقت كے ان ظالم حكمرانوں كے طرح طرح كے اجتماعى بحران و آشوب سے پُر تھا جو مختلف بہانوں سے امام (ع) پر دباؤ ڈالنے اور ان كى سرگرميوںكو محدود كرنے كى كوشش ميں لگے ہوئے تھے_

زمانہ كے حالات سے واقفيت كے لئے ان ظالموں كے جرائم كے چند گوشے ملاحظہ ہوں:

يزيد كے مرتے ہى 21 عبداللہ بن زبير جو برسوں سے خلافت و حكومت كى لالچ ميں تھا، مكہ ميں اٹھ كھڑا ہوا اور حجاز و يمن، عراق و خراسان كے لوگوں نے بھى ان كى بيعت كر لي، اور شام ميں معاويہ بن يزيد كے ہٹ جانے كے بعد جو بہت تھوڑے دنوں ( يعنى تين مہينہ يا چاليس دن)مسند خلافت پر تمكن رہا اس كے بعد مروان بن حكم نے، سازش كے ذريعہ حكومت تك رسائي حاصل كى اور عبداللہ بن زبير كى مخالفت ميں اٹھ كھڑا ہوا_ شام كے بعد مصر پر اپنا قبضہ مضبوط كيا_ ليكن اس كى حكومت زيادہ دنوں تك باقى نہيں رہى اور تھوڑى ہى مدت ميں مرگيا_ اس كى جگہ

 

135

اس كا بيٹا عبدالملك مسند خلافت پر بيٹھا_ عبدالملك نے شام و مصر ميں اپنى پوزيشن مضبوط ہوجانے كے بعد 65 ھ ميں عبداللہ بن زبير كا مكہ ميں محاصرہ كيا اور ان كو قتل كرديا _ 22

عبدالملك كے بڑے جرائم ميں حجاج بن يوسف كو بصرہ اور كوفہ كا حاكم بنانا ہے_ حجاج ايك خون خوار اور جرائم پيشہ شخص تھا اس نے لوگوں كو اذيتيں پہنچائيں اور كشت و خون كا بازار گرم كيا_ خاص كر شيعيان علي(ع) كو ختم كرنے كا اس نے بيڑا اٹھايا اور اپنى حكومت كے زمانہ ميں تقريباً ايك لاكھ بيس ہزار افراد كو قتل كرڈالا _ 23

عبدالملك بڑى سختى سے امام زين العابدين كى نگرانى كرتا تھا اور اس كوشش ميں تھا كہ آپ(ع) كے خلاف كسى بھى طريقہ سے كوئي بہانہ ہاتھ آجائے تو وہ آپ(ع) پر سخت گيرى كرے يا آپ كى توہين كرے_

اس كو جب يہ اطلاع ملى كہ امام زين العابدين (ع) نے اپنى آزاد كردہ كنيز سے عقد كر ليا ہے تو اس نے ايك خط ميں اس كام پر آپ كى شماتت كي_ اس نے چاہا كہ اس طرح وہ حضرت كو يہ سمجھا دے كہ ہم آپ(ع) كے تمام امور حتى كہ داخلى اور ذاتى امور سے بھى باخبر ہيں_ اور اس نے اپنى قرابت دارى كو بھى ياد دلايا، تو امام (ع) نے جواب ميں آئين اسلام كو اس سلسلہ ميں ياد دلاتے ہوئے فرمايا: كہ مسلمان ہوجانا اور خدا پر ايمان لانا ہميشہ دوسرے امتيازات كو ختم كرديتا ہے، امام(ع) نے طنز كے ذريعہ اس كے آبا و اجداد كى گذشتہ جہالت پر ( اور شايد اس كى موجودہ جہالت حالت پر ) سرزنش كى اور فرمايا:

فلا لوم على امرئ: مسلم: انّما اللّومُ لوم الجاہلية'' 24

86 ھ ميں عبدالملك كے مرنے كے بعد اس كا بيٹا وليد اس كى جگہ پر مسند خلافت بيٹھا_ 25 سيوطى كے بيان كے مطابق وہ ايك ستمگر اور لا پرواہ شخص تھا اودوسرے بنى اميہ كے حكمرانوںكى طرح يہ بھى امام (ع) كى شہرت اور محبوبيت سے خوف زدہ تھا اور آپ(ع) كى علمى و روحانى شخصيت سے اس كو تكليف تھي، اس وجہ سے وہ شيعوں كے چوتھے پيشوا كا وجود مسلمانوں كے معاشرہ ميں برداشت

 

136

نہيں كر سكتا تھا، اس نے دھوكہ كے ساتھ آپ كو زہر دے ديا_ 26

ايك طرف تو امام زين العابدين (ع)اپنے زمانہ كے ايسے ظالم و جرائم كا ارتكاب كرنے والے بادشاہوں اور ان كى شديد نگرانيوں كو برداشت كر رہے تھے، دوسرى طرف اپنے اطراف ميں ايماندار جاں نثاروں اور مجاہد دوستوں كا فقدان محسوس كرتے تھے_ لہذا آپ(ع) نے مخفى مبارزہ اورجہاد شروع كيا_ اپنے دروازہ كو دوسروں كے لئے بند كرديا، اس طرح آپ(ع) نے اپنى اور اپنے كچھ قابل اعتماد اصحاب كى جان بچالى اور اس محاذ پر صاحب امتياز عناصر كى پرورش، صالح افراد كى تيارى اور مخفى مبارزہ كے ذريعہ شيعى افكار كى تعليم ميں مشغول ہوگئے تا كہ اس راستہ كے سلسلہ كو جو بے شك منزل مقصود سے بہت قريب تھا _ اپنے بعد كے امام كے سپرد كرديں_

امام جعفر صادق _اپنى ايك حديث ميں امام (ع) چہارم كے حالات اور ان كى كردار ساز خدمات كو اس طرح بيان كرتے ہيں:

'' حسين ابن على (ع) كے بعد تمام لوگ راستہ سے پلٹ گئے مگر تين افراد: ابو خالد كابلي، يحيى ابن ام طويل اور جبير بن مطعم، اس كے بعد دوسرے لوگ ان سے آملے اور شيعوں كا مجمع بڑھ گيا_ يحيى بن ام طويل مدينہ ميں مسجد پيغمبر (ص) ميں آئے اور تقرير ميں لوگوں سے كہنے لگے: ہم تمہارے ( راستہ اور آئين كے ) مخالف ہيں اور ہمارے اور تمہارے درميان دشمنى اور كينہ ہے''_ 27

مكہ كے راستہ ميں ايك شخص نے اعتراض كرتے ہوئے امام سجاد(ع) سے كہا كہ '' آپ نے جہاد اور اس كى سختى كو چھوڑ ديا اور حج جو آسان ہے اس كے لئے جا رہے ہيں؟ تو آپ(ع) نے فرمايا: اگر باايمان مددگار اور جان نثار اصحاب ہوتے تو جہاد اور مبارزہ حج سے بہتر تھا_ 28

ابوعمر نہدى كا بيان ہے كہ '' امام زين العابدين (ع)نے فرمايا: مكہ اور مدينہ ميں ہمارے بيس دوست (حقيقى اور جاں نثار ) نہيں ہيں_ 29

اس طرح امام زين العابدين (ع)كا كام بے حد دشوار ہمت شكن اور شجاعت كا كام تھا اور

 

137

آپ نہايت محدوديت كے عالم ميں اس بات ميں كامياب ہوگئے كہ ايك سو ستر ايسے نماياں شاگردوں كى تربيت كرديں جن ميں سے ہر ايك اسلامى معاشرہ ميں روشن چراغ تھا_ جن افراد كے نام رجال كى كتابوں ميں موجود ہيں ان ميں سعيد بن مسيب ،سعيد بن جبير، محمد بن جبير، يحيى بن ام طويل، ابوخالد كابلي، ابوحمزہ ثمالى جيسى شخصيتوں كے نام لئے جاسكتے ہيں_

امام زين العابدين (ع)نے نماياں شاگردوں كى تربيت اور اسلامى معارف كى نشر و اشاعت كے ذريعہ اسلامى معاشرہ اور اموى حكومت كے صاحب حيثيت افراد كے دلوں ميں ايك مخصوص شكوہ و عظمت پيدا كرلى يہاں تك كہ ايك حج كے موقع پر جب آپ(ع) كا سامنا عبدالملك بن مروان سے ہوا تو نہ صرف يہ كہ آپ نے اس كو سلام نہيں كيا بلكہ اس كے چہرہ پر نظر بھى نہيں ڈالى عبدالملك اس بے اعتنائي پر بڑا ناراض ہوا_ اس نے آہستہ سے امام (ع) كے ہاتھ كو پكڑ اور كہا:'' اے ابومحمد مجھے ديكھئے ميں عبدالملك ہوں نہ كہ آپ كے باپ كا قاتل يزيد'' امام(ع) نے جواب ديا:'' ميرے باپ كے قاتل نے اپنے اقدام كے ذريعہ اپنى آخرت خراب كر لى اگر تو بھى ميرے باپ كے قاتل كى طرح ہونا چاہتا ہے تو كوئي حرج نہيں ہے''_

عبدالملك نے غصہ ميں كہا:'' ميں ہرگز ايسا ہونا نہيں چاہتا ليكن مجھے اس بات كى اميد ہے كہ آپ(ع) ہمارے وسائل سے بہرہ مند ہوں گے امام (ع) نے جواب ميں فرمايا:'' مجھ كو تمہارى دنيا كى اور جو كچھ تمہارے پاس ہے اس كى كوئي ضرورت نہيں_ 30

دعائيں

امام زين العابدين (ع)كے مثبت اقدام ميں ايك قدم اور بنيادى كوشش يہ تھى كہ آپ (ع) _ انفرادى اور اجتماعى _ تربيت و عقائد سے متعلق مسائل كى نشر و اشاعت دعا كے پيرايہ ميں كريں_

 

138

جو آپ كى يادگار كے طور پر محفوظ رہ گئي ہيں_

صحيفہ سجاديہ كے مضامين اور اس ميں بيان كى گئي باتوں پر غور و فكر نے بہت سے مسائل كو ہمارے لئے روشن كرديا ہے، اسلامى معاشرہ بلكہ انسانى معاشرہ كو اس كتاب نے عالم كى معلومات ،خدا كى معرفت، انسان كى معرفت و غيرہ كے ايك سلسلہ كا تعارف كرايا ہے_

ان حالات ميں جب امام _ كو بيان اور گفتگو كى آزادى ميسر نہ تھي، آپ نے دعا اور مناجات كے ذريعہ اعتقادى اور اخلاقى دستور العمل اور اجتماعى زندگى كے لائحہ عمل كو بيان كيا اور مسلمانوں كے درميان اس كو منتشر كرديا_

صيحفہ سجاديہ كى عظمت كو سمجھنے كے لئے مشہور مصرى مفسر طنطاوى كا قول كافى ہے، وہ كہتے ہيں كہ'' صحيفہ سجاديہ وہ تنہا كتاب ہے جس ميں علوم و معارف اور حكمتيں موجود ہيں اس كے علاوہ كسى كتاب ميں ايسا ذخيرہ نہيں ہے اور يہ مصر كے لوگوں كى بد نصيبى ہے كہ وہ ابھى تك اس كى گراں بہا اور جاودانہ باتوں سے واقف نہيں، ميں اس ميں جتنا بھى غور كرتا چلا جاتا ہوں اس كو مخلوق كے كلام سے بالاتر اور خالق كے كلام سے نيچے ديكھتا ہوں_ 31

امام گوشہ نشينى اور محدوديت كے باوجود دعاؤں كے ذريعہ مسلمانوں كو قيام اور تحريك كا درس ديتے ہيں اور اپنے خدا سے راز و نياز كى باتيں كرتے ہوئے فرماتے ہيں'' خدايا مجھ كو ايسى طاقت اور دست رسى عطا كر كہ جو لوگ مجھ پر ظلم كرتے ہيں ميں ان پر كاميابى حاصل كروں اور ايسى زبان عنايت فرما كہ مقام احتجاج ميں غلبہ حاصل كرسكوں، ايسى فكر اور سمجھ عطا فرما كہ دشمن كے حيلوں كو درہم برہم كردوں اور ظالم كے ہاتھ كو ظلم و تعدى سے روك دوں_ 32

صحيفہ سجاديہ ميں ايسے بہت سارے نمونے موجود ہيں_

 

139

شہادت

امام زين العابدين (ع)57 سال تك رنج و مصيبت برداشت كرنے كے بعد وليد بن عبدالملك كے دور حكومت ميں اس كے حكم سے جس نے اپنى خلافت و حكومت كا محور ظلم و جور اور قتل و غارت بنا ركھا تھا، مسموم ہوكر، 25 محرم 95 ھ ق كو شہادت پائي اور قبرستان بقيع ميں امام حسن مجتبى (ع) كى قبر مطہر كے پہلو ميں سپرد خاك كئے گئے_ 33

 

140

سوالات

1_ امام زين العابدين (ع) كى تاريخ ولادت بيان فرمايئےور ان كى اخلاقى خصوصيات ميں سے دو نمونے بيان كيجئے_

2_ پيغام عاشوراء كو پہنچا نے اور اس سے حاصل شدہ نتائج كى نگہبانى كرنے ميں آپ نے كيا كردار ادا كيا؟ مختصر طور پر وضاحت كيجئے_

3_ يزيد نے جو نشست شام كى جامع مسجد ميں منعقد كى تھي، امام (ع) نے اس سے اپنے لئے كس طرح فائدہ حاصل كيا؟

4_ مدينہ واپسى كے بعد حكومت بنى اميہ كے مد مقابل امام (ع) كا موقف كيوں تبديل ہوگيا؟ اختصار كے ساتھ بيان كيجئے_

5_ مدينہ واپس آنے كے بعد شہادت كے زمانے تك امام زين العابدين (ع)كے اہم كام كيا تھے؟

6_ امام سجاد (ع) كس تاريخ كو اور كيسے شہيد ہوئے؟

 

141

حوالہ جات

1 الفصول المہمہ /201-

2 اصول كافى جلد/ 466، ارشاد مفيد /253، اعيان الشيعہ ( دس جلد والى ) جلد 1/629-

3 ارشاد مفيد /253-

4 آل عمران /134-

5 ارشاد مفيد /257، اعيان الشيعہ جلد 1/632-

6 ارشاد مفيد/259، مناقب جلد 4/ 163 ليكن مناقب ميں زيد بن اسامہ كے بجاے '' محمد بن اسامہ '' لكھا ہے_

7 تذكرة الخواص ابن جوزى / 184، اعيان الشيعہ جلد 1/633، مناقب جلد 4/153-

8 خصال صدوق مطبوعہ غفارى /517، مناقب جلد 4/150-

9 يہ واقعہ، سانحہ كربلا كے بعد يزيد كى حكومت كے دوسرے سال پيش آيا اس ميں يزيد كے حكم سے سپاہ شام نے مدينہ پر حملہ كيا اور تين دن تك مسلمانوں كى جان، مال،عزت و آبرو كو اپنے اوپر مباح سمجھتے رہے_

10 اعيان الشيعہ ج 1/ 636، بحار ج 46/138،كامل ابن اثير ج 4/112-113-

11 استلام _ہاتھ سے لمس كرنا، چھونا، بوسہ دينا_

12 امالى سيد مرتضى جلد 1/66، اعيان الشيعہ ( دس جلد والي) جلد 1/634، تذكرة الخواص، بحار ج 46/127-125-

13 احتجاج طبرسى جلد 2/30، اعيان الشيعہ ( دس جلد والي) جلد1/613، بحار جلد 44/112-

14 لہوف سيد ابن طاؤوس /144، مقتل خوارزمى جلد 2/43، بحار جلد 44/117-118-

15 اما ظنّك برسول اللہ لو راناً موثقين فى الحبال-

16 تذكرة الخواص /149، اعيان الشيعہ ( دس جلدي) جلد 1/615، بحار جلد 44/132-

17 ذريعة النجاة /234-

18 عام الفيل كے 35 سال بعد پيغمبراكرم (ص) كے ہاتھوں حجر اسود نصب كئے جانے والے واقعہ كى طرف اشارہ ہے_

19 كامل بہائي جلد 2/302، بحار جلد 45/137_139-

20 امام حسين كى زندگى كى تاريخ كى تحقيق كے سلسلہ ميں ہم نے بعض شورشوں اور تحريكوں كى طرف اشارہ كيا ہے_

 

142

21 امام حسين (ع) كى شہادت كے بعد يزيد كى حكومت كے سہ سالہ جرائم كو گذشتہ اسباق ميں بيان كيا گيا ہے اس لئے يہاں پر اس كا تكرار نہيں كيا_

22 كامل ابن اثير جلد 4/348_356-

23 كامل ابن اثير جلد 4/587-

24 كافى جلد 5/244، مناقب جلد 4،162_ يعنى مسلمان ميں كوئي پستى اور ذلت نہيں ہے بلكہ صرف جاہليت كى فرمايگى ميں پستى ہے_

25 تاريخ الخلفاء /223_

26 مناقب ابن شہر آشوب جلد4/176_

27 بحار جلد 46/144، الاختصاص للمفيد /64، رجال كشى /81_

28 احتجاج طبرسى جلد 2/44،45، اعيان الشيعہ جلد 1/635، مناقب جلد 4/159_

29 بحار جلد 46/143، شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد جلد 4/104_

30 بحار جلد 46/120_

31 خاتمہ ترجمہ صحيفہ سجاديہ مطبوعہ آخوندي_

32 اللہم صلّ على محمّدو آلہ و اجعل لى يداً على من ظلمنى و لساناً على من خاصمنى و ظفراً بمَن عاندنى و ہب لى مكراً على من كادنى '' صحيفہ سجاديہ دعاء /20''_

33 مصباح كفعمى /509، كافى جلد 1/468، بحار جلد 46/152_

 

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

جنگى توازن
تہذيبي انقلاب کي اہميت
حدیث ثقلین شیعوں کی نظر میں
قرآن میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ(سوم)
اچھي عبادت سے خدا خوش ہوتا ہے
نبوت کي نشانياں
حضرت آدم علیه السلام وحوا کے کتنے فرزند تھے؟
عام الحزن
دعوت اسلام کا آغاز
کاتبان وحی

 
user comment