اردو
Friday 19th of April 2024
0
نفر 0

امیرالمومنین (علیہ السلام) کے ذریعہ منیٰ میں سورۂ برائت کی تبلیغ کا دن

۳۔ امیرالمومنین (علیہ السلام) کے ذریعہ منیٰ میں سورۂ برائت کی تبلیغ کا دن:یہ دن بھی تاریخ اسلام کا بہت اہم دن مانا جاتا هے اور مفسرین نے احتمال ظاہر کیا ھے یہاں "الیوم" سے مراد منیٰ میں امیرالمومنین (علیہ السلام) کے ذریعہ سورۂ برائت کی قرائت و تبلیغ کا دن هے۔ یہ واقعہ ہجرت کے نویں سال ظهور میں آیا۔ فتح مکہ ایک فوجی و نظامی فتح تھی، حتی اس فتح سے اسلام کی معنوی قوت بھی خاصی محکم هوگئی تھی۔ لیکن ابھی پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کفارہ کے ساتھ صلح کے طے شدہ معاہدہ کی شرطوں کے تحت زندگی گزار رهے تھے۔ اس بنا پر وہ بھی خانہ کعبہ کے طواف اور مکہ میں زندگی کا حق رکھتے تھے ساتھ هی انھیں حج کے مراسم میں شرکت کا حق حاصل تھا اور ایک سال حج کی یهی صورت حال تھی۔مسلمان اور کفار دونوں حج میں شریک هوئے۔ مسلمانوں نے اسلامی دستور کے مطابق حج ادا کیا اور کفار اپنے طور پر حج کے مراسم انجام دیتے رهے۔ ہجرت کے نویں سال سورۂ برائت نازل هوا۔ اور طے هوا کہ امیرالمومنین (علیہ السلام) منیٰ میں عام مجمع کے سامنے اس سورہ کی قرائت کریں کہ اب مشرکین کو حج میں شرکت کرنے کا کوئی حق نهیں هے۔ اور یہ عبادت صرف مسلمانوں سے مخصوص هے اور بس۔

یہ بڑا مشهور واقعہ هے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پہلے ابوبکر کو امیر الحاج بنا کر مکہ کی جانب روانہ کیا۔ لیکن وہ ابھی راستہ میں تھے کہ آیت نازل هوئی۔ "اب یہ کہ ابوبکر سورۂٔ برائت بھی اپنے ہمراہ لے گئے تھے یا اس وقت تک سرے سے سورۂ برائت نازل هی نهیں هوا تھا اور وہ صرف امیر الحاج بنا کر بھیجے گئے تھے۔"اس میں مفسرین کے درمیان اختلاف هے۔ لیکن بہر حال شیعہ و سنی سب کا اس پر اتفاق هے اور اسے فضائل علی (علیہ السلام) کا جزو شمار کرتے هیں، کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے امیرالمومنین (علیه السلام) کو اپنے مخصوص مرکب کے ذریعہ روانہ کیا اور ان سے فرمایا کہ جاؤ مجھ پر وحی نازل هوئی هے کہ اس سورہ کو لوگوں کے درمیان یا میں خود پڑھوں  یا وہ جو مجھ سے هو۔ امیرالمومنین (علیہ السلام) گئے اورراستہ میں ابوبکر سے ملاقات کی۔ واقعہ یوں نقل کیا جاتا هے کہ ابوبکر خیمہ میں بیٹھے تھے کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مخصوص شتر نے آواز بلند کی، آپ اس آواز کو پہچانتے تھے، کہنے لگے یہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اونٹ کی آواز هے۔ یہ یہاں کیسے آیا؟ ناگاہ انهوں نے دیکھا کہ علی (علیہ السلام) تشریف لائے هیں۔ بہت رنجیدہ هوئے۔ سمجھ گئے کہ کوئی اہم خبر هے۔ دریافت کیا، کیا کوئی بات هوگئی هے؟ آپ نے فرمایا پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے حکم دیا هے کہ سورۂ برائت لوگوں کے درمیان میں جا کر پڑھو۔ پوچھا، میرے خلاف تو کچھ نهیں نازل هوا هے؟ فرمایا نهیں۔ یہاں پر اختلاف هے۔ اہل سنت کہتے هیں علی(علیہ السلام) گئے اورانهوں نے سورۂ برائت کی تلاوت فرمائی۔ ابوبکر نے بھی اپنا سفر جاری رکھا پس یہ منصب و ذمہ داری آپ کے ہاتھ میں نہ رهی لیکن شیعہ اور بہت سے اہل سنت کا ، جیساکہ تفسیرالمیزان میں بھی نقل هوا هے یہ هے کہ ابوبکر وہاں سے واپس پلٹ آئے اورپیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آکر دریافت کیا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا اس سورہ میں میرے خلاف کوئی چیز نازل هوئی هے؟ فرمایا، نهیں۔

سورۂ برائت کے اعلان کا دن بھی مسلمانوں کے لئے بڑا عظیم دن تھا۔ اس روز یہ اعلان هوا کہ آج سے کفار و مشرکین حج کے مراسم میں شریک نهیں هوسکتے، حرم کی سر زمین صرف مسلمانوں سے مخصوٓص هے۔ مشرکین سمجھ گئے کہ اب شرک کی حالت میں زندگی نهیں گزارسکتے۔ اسلام شرک کو برداشت نهیں کرسکتا۔ اسے یهودیت، عیسائیت اور مجوسیت جیسے ادیان کے ساتھ تو معاشرتی زندگی قبول هے لیکن شرک کے ساتھ زندگی کسی صورت برداشت نهیں۔ چنانچہ اس روز کی اہمیت کو دیکھتے هوئے یہ کہا گیا کہ شاید یہاں "الیوم" سے مراد یهی روز هو۔

اس کاجواب یوں دیا گیا کہ یہ بات: "اتممت علیکم نعمتی" میں نے اپنی نعمتیں تم پر تمام کردیں اوردین کی عمارت اتمام کو پہنچ گئی، کے ساتھ کسی طرح میل نهیں کھاتی، کیونکہ بہت سے احکام اس روز کے بعد بھی نازل هوئے هیں۔ یہ روز بہر حال پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی کے آخری دنوں میں سے هونا چاہئے کہ جس کے بعد کوئی حکم یا قانون نازل نہ هوا هو۔

جو افراد "الیوم" سے فلاں روز مراد لیتے هیں ان کے پاس اپنی بات کی کوئی دلیل نهیں هے۔

یعنی نہ صرف تاریخ اس کی تائید نهیں کرتی، بلکہ قرائن سے بھی ان کی بات ثابت نهیں هوتی۔

شیعوں کابیان

یہاں شیعہ ایک بات کہتے هیں اور اس کا دعویٰ کرتے هیں کہ آیات کے مضمون سے بھی اس کی تائید هوتی هے اور تاریخ سے بھی۔ لہٰذا اس پر دو نوعیت سے بحث هونی چاہئے۔ ایک یہ کہ آیات کا مضمون اس کی تائید کرتا هے۔ اور دوسرے تاریخ بھی اس کی مؤید هے۔

۱۔ تاریخ کے آئینہ میں: یہ تاریخ کا بڑا هی تفصیلی مسئلہ هے۔ زیادہ تر کتابیں جو اس موضوع پر لکھی گئی هیں ان میں اکثر و بیشتر اس پر انحصار کیا گیا هے کہ تاریخ و حدیث کی روشنی میں یہ ثابت کریں کہ آیت: "الیوم یئس الذین کفروا من دینکم فلا تخشوھم واخشون الیوم اکملت لکم دینکم وتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دیناً" غدیر خم میں نازل هوئی هے۔ کتاب "الغدیر" نے اسی بات کو ثابت کیا هے۔حدیث کی کتابوں کے علاوہ، مؤرخین کا نقطہ نگاہ بھی یهی هے۔ اسلام کی قدیم ترین، عمومی اور معتبر ترین تاریخ کی کتاب "تاریخ یعقوبی" هے جسے شیعہ و سنی دونوں معتبر جانتے هیں۔ مرحوم ڈاکٹر آیتی نے کتاب کی دونوں جلدوں کا (فارسی میں) ترجمہ کیا هے۔ کتاب بہت هی متقن و محکم هے۔ اور تیسری صدی ہجری کے اوائل میں غالباً عہد مامون کے بعد متوکل کے زمانہ میں لکھی گئی هے۔ یہ کتاب جو فقط تاریخ کی کتاب هے اورحدیث سے اس کاتعلق نهیں هے، ان بہت سی کتابوں میں سے ایک هے جس میں غدیر خم کا واقعہ لکھا گیا هے۔ اس کے علاوہ اہل سنت کی لکھی هوئی دوسری کتابیں بھی هیں جنھوں نے غدیر کے واقعہ کو لکھا هے۔

روایت یوں هے کہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حجۃ الوداع[1]  سے واپس هوتے هوئے جب غدیر خم پہنچے، "جو جحفہ"[2] کے نزدیک هے تو آپ نے قافلہ روک دیا اور اعلان فرمایا کہ: میں لوگوں سے ایک اہم بات کہنا چاہتا هوں۔ (یہ آیتیں بھی وهیں نازل هوئیں) اس کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم سے اونٹوں کے کجاؤں اور دوسری چیزوں کے ذریعہ ایک اونچا منبر بنایا گیا۔ حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بالائے منبر تشریف لے گئے اور ایک مفصل خطبہ ارشاد فرمایا جس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمانوں کو خطاب کرتے هوئے دریافت فرمایا: الست اولیٰ فیکم من انفسکم قالوا بلیٰ۔ تب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: "من کنت مولاہ فھٰذا علی مولاہ" اسی کے بعد یہ آیت نازل هوئی:  الیوم یئس الذین کفروا من دینکم فلا تخشوھم واخشون الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دیناً"

اگر ہم اس کے تاریخی پہلو پر بحث کرنا چاهیں تو شیعہ و سنی اورخاص طور سے اہل سنت کی ایک ایک کتاب کا تحقیقی جائزہ لینا هوگا جنھوں نے اس واقعہ کو نقل کیا هے۔ ان چیزوں کا کتاب "الغدیر" یا اس کے جیسی دوسری کتابوں میں جائزہ لیا گیا هے۔ ابھی چند سال پہلے کانون نشر حقائق "مشہد سے غدیر کے موضوع پر ایک مختصر اور جامع کتاب شائع هوئی هے جس کا مطالعہ افادیت سے خالی نهیں هے۔

شیعہ، تاریخی حیثیت سے ایک استدلال یہ کرتے هیں کہ جب آیت: الیوم اکملت لکم دینکم" سے لفظی طور پر یہ ظاہر نهیں هوتا کہ "الیوم" سے مراد کون سا روز هے تو اس آیت کی تاریخ و شان نزول کی طرف رجوع کرتے هیں۔ نتیجہ میں ہم دیکھتے هیں کہ ایک، دو یا دس نهیں بلکہ متواتر طور پر روایات یہ بیان کرتی هیں کہ یہ آیت غدیر کے روز نازل هوئی هے جب پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے علی (علیہ السلام) کو اپنا جانشین مقرر فرمایا تھا ۔

۲۔ آیت میں موجود قرائن کی روشنی میں: لیکن ہم یہ دیکھنا چاہتے هیں کہ کیا آیت میں موجودہ قرائن بھی ان نکات کی تائید کرتے هیں جن کی مؤید تاریخ هے؟  آیت یہ هے:الیوم یئس الذین کفروا من دینکم" آج یا (اس روز) کفار تمہارے دین سے مایوس هوگئے۔ اسے ہم قرآن کی ان آیات کا ضمیمہ قرار دیتے هیں، جن میں مسلمانوں کو خبر دار کیا اور ڈرایا گیا ہے کہ دیکھو کفار برابر تمہارے دین کے خلاف سازشیں کررهیں هیں، تم کو تمہارے دین سے منحرف کردینا چاہتے هیں اور تمہارے دین کے خلاف سازش کررهے هیں۔ تم کو تمہارے دین سے منحرف کردینا چاہتے هیں اور تمہارے دین کے خلاف اقدامات میں مصروف هیں۔ اس کوشش میں اہل کتاب اور غیراہل کتاب دونوں شامل هیں: ودّ کثیر من اھل الکتاب لو یردّونکم من بعد ایمانکم کفاراً حسداً من عند انفسھم[3]" (یعنی بہت سے اہل کتاب تمہارے ایمان پر حسد کرتے هوئے اس بات کے خواہشمند هیں کہ تمهیں دوبارہ (ایمان سے) کفر کی دنیا میں کھینچ لے جائیں) چنانچہ ایک طرف خدا قرآنی آیات کے ذریعہ ظاہر کر رہا هے کہ کفار تمہارا دین مٹانے کے درپے هیں اور دوسری طرف اس آیت میں فرماتا هے۔ "لیکن اب آج سے کفار مایوس هوگئے" آج سے وہ تمہارے دین کے خلاف کوئی اقدام نهیں کریں گے۔ فلا تخشوھم اب ان کی طرف سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نهیں هے "واخشون" مجھ سے ڈرو۔ یعنی آج کے بعد سے تمہارا دین مٹتا رهے، ضعیف هوجائے یا جو کچھ بھی تمهیں پیش آئے، بس مجھ سے ڈرتے رهو۔ "یہ مجھ سے ڈرو" کے معنی کیا ھیں؟ کیا خدا خود اپنے دین کا دشمن ہے؟ نهیں۔ اس مختصر سے جملہ کا مفهوم وهی هے جس کا قرآن کی بہت سی آیتوں میں خدا کی طرف سے اپنے بندوں کو نعمتوں سے محروم کردینے کے سلسلہ میں ایک بنیادی اصول کے طور پر ذکر هوا هے۔ ارشاد هوتا هے: "انّ اللہ لا یغیّر ما بقوم حتیٰ یغیّروا ما بانفسھم[4]" یا "ذالک بانّ اللہ لم یک مغیراً نعمۃ انعمھا علی قوم حتّی یغیروا ما بانفسھم[5] " ان آیتوں کا مفهوم یہ هے کہ خدا وند عالم جو نعمت بھی کسی قوم پر نازل کرتا هے اس سے وہ نعمت اس وقت تک سلب نهیں کرتا جب تک لوگ خود کو اس کے لئے نااہل قرار نهیں دیتے یعنی جب لوگ خود اپنے ہاتھوں سے اس نعمت کو زائل کردینا چاهیں اوراس کی بے قدری کرنے لگیں تو خدا بھی اس سے وہ نعمت دور کردیتا هے۔ یہ قانون در اصل قرآن کا ایک بنیادی و اساسی قانون هے۔



[1] حجۃ الوداع، پیغمبر (ص) کی آخر عمر میں آپ کی وفات کے دوماہ پہلے کا حج تھا۔ پیغمبر اکرم (ص) کی وفات ۲۸ صفر یا اہل سنت کے مطابق ۱۲ ربیع الاول کو واقع ہوئی۔ حضرت (ص) ۱۸ ذی الحجہ کو غدیر خم پہنچے۔ غدیر کا واقعہ شیعوں کے مطابق وفات پیغمبر اسلام (ص) سے دو ماہ دس روز قبل اور اہل سنت کے مطابق دو ماہ چوبیس روز پہلے پیش آیا هے۔

[2] شاید آپ میں سے بعض حضرات جحفہ گئے ہوں۔ مجھے اپنے دوسرے سفر حج میں جحفہ جانے کا بھی اتفاق ہوا۔ کیونکہ میرے مدینہ کے سفر میں تاخیر ہوئی اور میں حج کے بعد گیا۔ یہاں سے ہم جدہ گئے اس جگہ فتوؤں میں اختلاف هے کہ جدہ سے احرام باندھا جاسکتا هے یا نہیں۔ یہ اختلاف بھی حقیقتاً فتوائی اختلاف نہیں هے بلکہ جغرافیائی هے کیونکہ وہ جگہ جو کسی ایک میقات کے مقابل ہو وہاں سے احرام باندھا جاسکتا هے۔ ایک جغرافیہ داں جو عرب کے جغرافیہ سے بخوبی واقف ہو شاید جسہ کے کسی ایک میقات کے مقابل ہونے یا نہ ہونے کی دقیق طور سے تعیین کرسکتاهے۔ ہم نے خود بھی پہلے عمل نہیں کیا، لیکن بعد میں مکہ اور مدینہ میں عرب کا نقشہ دیکھنے کے بعد یہ نظر آتا هے کہ جدہ بھی بعض میقاتوں کے رو برو آتا هے۔ شرط یہ هے کہ وہ نقشہ درست رہا ہو۔ جو لوگ جدہ سے مکہ جانا چاہتے ہیں اور احتیاط کی بنا پر کسی ایک واقعی میقات سے احرام باندھنا چاہتے ہیں وہ جدہ سے جحفہ آتے ہیں جحفہ مدینہ کی شاہراہ کے نزدیک هے۔ یہ اہل شام کا میقات هے۔ شام مکہ کے شمال مغرب میں واقع هے۔ چنانچہ جب لوگ شام سے مکہ کی طرف آتے تھے تو کچھ مسافت طے کرنے کے بعد جحفہ پہنچتے تھے۔ پیغمبر اکرم (ص) نے اس طرف سے آنے والوں کے لئے اسے میقات قرار دیا۔ غدیر خم جحفہ کے نزدیک واقع هے اور ایسی جگہ هے کہ جب مسلمان مکہ سے واپس ہوتے ہوئے اس جگہ پر پہنچتے تھے تو وہیں سے الگ الگ سمتوں میں متفرق ہوجاتے تھے۔ اہل مدینہ، مدینہ کی جانب اور دوسرے شہروں والے اپنی اپنی منزلوں کی طرف۔

[3] سورہ بقرہ، آیت/ ۱۰۹

[4] سورۂ رعد، آیت / ۱۱

[5] سورۂ انفال، آیت/ ۵۳

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

خود شناسی(پہلی قسط)
قرآن کی حفاظت
جھاد قرآن و حدیث کی روشنی میں
سیاست علوی
قرآن مجید و ازدواج
عید سعید فطر
شب قدر ایک تقدیر ساز رات
آخرت میں ثواب اور عذاب
انیس رمضان / اللہ کے گھر میں پہلی دہشت گردی
حضرت امام علی علیہ السلام کے حالات کا مختصر جائزہ

 
user comment