اردو
Wednesday 24th of April 2024
0
نفر 0

الیوم یئس… اور مسئلۂ امامت

الیوم یئس… اور مسئلۂ امامت

 

گزشتہ بحث میں ہم عرض کرچکے هیں کہ مسئلہ امامت کے سلسلہ میں شیعہ اور اہل سنت کے نظریوں کی بنیاد ایک دم الگ الگ هے۔اور یہ دونوں نظر یے بنیادی طور سے مختلف هیں۔ لہٰذا اس مسئلہ میں یہ بحث کرنا هی غلط هے کہ ہم بھی امامت کے قائل هیں اور وہ بھی، لیکن امامت کے شرائط میں ہم دونوں کے نظریوں میں فرق هے۔ کیونکہ شیعہ امامت سے جس مرتبہ و منصب کے قائل هیں وہ اس سے بالکل جدا هے جس کے امامت کے نام پر اہل سنت معتقد هیں۔ اسی طرح جیسے اس مسئلہ کویوں اٹھانا صحیح نهیں هے کہ امامت نص کے ذریعہ معین هوتی هے یا شوریٰ کے ذریعہ؟ یعنی امام کی تعیین پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کرنی چاہئے یا لوگوں کو اس کے انتخاب کا اختیار هے"کیونکہ امامت کےسلسلہ میں شیعہ جو عقیدہ رکھتے هیں اور کہتے هیں کہ امام نص کے ذریعہ معین هوتا هے وہ اس سے ایک دم الگ هے جس کا اہل سنت اظہار کرتے هیں اور کہتے هیں کہ اس کا انتخاب شوریٰ سے هوتا هے۔ ایسا نهیں هے کہ دونوں ایک هی چیز کے بارے میں بحث کرتے هیں اورایک کہتا هے کہ یہ نص کے ذریعہ هے، دوسرا کہتا هے شوریٰ کے ذریعہ اصل میں کہنا یہ چاہئے کہ شیعہ کی نظر میں امامت سے مراد جو کچھ هے اہل سنت اسے سرے سے قبول هی نهیں کرتے، صرف اس کے شرائط هی میں اختلاف نهیں رکھتے۔ اس کی مثال بالکل منکرین نبوت کے نزدیک نبوت کے مانند هے۔ شیعہ امامت سے وہ بلند و بالامقام مراد لیتے هیں کہ قہری طور پر اگر کوئی اس مقام کا تصور کرلے اور اسے قبول کرلے تو بہر حال اسے ماننا هی پڑے گا کہ امام کو خدا کی جانب سے معین کیا جاناچاہئے۔ جس طرح نبوت کے سلسلہ میں کبھی یہ نهیں کہا جاتا کہ لوگ بیٹھ کر نبی منتخب کرلیں۔ اسی طرح شیعہ نقطۂ نطرسے امام کی جو حیثیت و منزلت هے، اس کے لئے بھی یہ کہنے کی گنجائش نهیں هے کہ لوگ مل بیٹھ کر ایسے کسی شخص کا انتخاب کرلیں۔

گذشتہ بحث میں ہم شیعی نقطۂ نظر سے امامت کے مراتب و شرائط کا ذکر کرتے هوئے یہاں تک پہنچے تھے کہ شیعہ اس مسئلہ کو اوپر سے شروع کرتے هیں (یعنی خدا سے) اور وہاں سے زینہ بازینہ نیچے آتے هیں اس کے بعد وہ یہ کہتے هیں کہ یہ بات صرف ایک مفروضہ هی نہ رہ جائے لہٰذا دیکھنا چاہئے کہ ہم امامت کے سلسلہ میں جو اعلیٰ معیار رکھتے هیں،کیا پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے بھی کسی کو اس مقام کے لئے معین فرمایا هے؟ اور قرآن بھی اس سلسلہ میں کچھ فرماتا هے یانهیں؟

پہلے یہ خیال تھا کہ اسی ترتیب کے ساتھ گفتگو کو آگے بڑھاؤں جس ترتیب سے خواجہ نصیرالدین نے اپنی کتاب تجرید میں اس مسئلہ کو پیش کیا هے، لیکن چونکہ عید غدیر نزدیک هے لہٰذا طے کیا کہ بہتر هے پہلے غدیر سے مربوط آیا ت پر هی کچھ روشنی ڈالی جائے۔

آیہ الیوم یئس الذین …… کی تحقیق

سورۂ مائدہ کے شروع میں یہ آیت مذکور هے: الیوم یئس الذین کفروا من دینکم فلا تخشوھم واخشون الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا"[1] آیت کے یہ دونوں حصے جو "الیوم" سے شروع هوتے هیں ایک هی آیت کے ضمن میں هیں۔ اور قدر مسلّم یہ هے کہ دونوں ایک هی مطلب سے مربوط هیں نہ کہ دو الگ الگ مطالب سے۔ پہلے اس آیت کا ترجمہ عرض کردوں پھر قرآن کے لحاظ سے اس کی شروح و تفسیر بھی کروں گا۔

لفظ "یوم" یعنی روز جب "الف ولام" کے ساتھ ذکر هوتا هے (الف ولام عہد کے ساتھ) تو کبھی "اُس روز"کے معنی دیتا هے اور کبھی"آج" کے معنی ظاہر کرتا هے۔" اس روز" کے معنی میں وہاں استعمال هوتا هے جہاں پہلے ایک روز کا ذکر هوچکا هو، بعد میں الیوم کهیں تو وہاں "اُس روز" مراد هوگا۔ اور اگر کهیں مثلاًً الیوم فلاں شخص آیا تو یہاں اس سے مراد آج هوگا۔ الیوم یئس الذین کفروامن دینکم (ابھی ہم یہ نهیں کہتے کہ اس سے مراد اس روز هے یا آج۔ اس کی وضاحت ہم بعد میں کریں گے) اس روز یاآج کفار تمہارے دین سے مایوس هوگئے۔ فلا تخشوھم لہٰذا اب ان سے کوئی خوف محسوس نہ کرو۔  تمہارے دین سے ان کے مایوس هوجانے کا مطلب یہ هے کہ اب وہ تمہارے دین پر غلبہ پانے اور اسے نیست نابود کرنے سے مایوس هوگئے۔ اور چونکہ مایوس هوگئے لہٰذا اسلام مخالف اپنی گزشتہ ریشہ دوانیوں سے بھی دست بردار هوگئے۔ اور اب ان سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نهیں هے۔ بعد کا جملہ بہت عجیب هے۔ ارشاد هوتا هے: "واخشون" اور مجھ سے ڈرو۔ یعنی کہا یہ جارہا هے کہ اب کفار کی طرف سے ڈرنے کی ضرورت نهیں لیکن میری طرف سے خوف زدہ رهو جبکہ بات خود دین کی هورهی هے۔ کفار کی طرف سے خوف کا مطلب تو یہ تھا کہ ان سے دین کو کوئی گزند پہنچے، ان کے لئے تو خدا فرماتا هے نہ ڈرو اب وہ کچھ نهیں کرسکتے "واخشون" لیکن مجھ سے ڈرو۔ فطری طور پر معنی تو یهی هوں گے کہ اب اگر دین کو کوئی گزند نہ پہنچے گا تو میری طرف سے پہنچے گا۔  آخر یہ کون سا مفهوم هے کہ آج کے بعد سے اپنے دین کے لئے کفار سے نہ ڈرو۔" اس سے کیا مقصود هے اسے بعد میں ذکر کروں گا۔

پھر ارشاد هوتا هے:" الیوم اکملت لکم دینکم" اس روز (یا آج) میں نے تمہارے دین کو کامل کیا یعنی حد کمال پر پہنچا دیا۔"واتممت علیکم نعمتی" یعنی اپنی نعمت کو تم پر تمام کردیا۔ یہاں دو قریب المعنی لفظ ذکر هوئے هیں: "اکمال" و"اتمام" یہ دونوں لفظ ایک دوسرے کے بہت قریب هیں یعنی میں نے کامل کیا یا تمام کیا۔

اکمال اوراتمام کا فرق

(فارسی میں اور خصوصاً عربی میں) ان دونوں لفطوں کا باہمی فرق یہ هے کہ "اتمام" اس جگہ استعمال هوتا هے جہاں کسی چیز کے اجزاء یکے بعد دیگرے آتے رهیں جب تک تمام اجزاء نہ آجائیں اس چیز کو ناقص کہتے هیں اور جب اس کا آخری جزو بھی آجاتا هے تو کہتے هیں وہ چیز تمام هوگئی مثلاً ایک مکان جب وہ پورا بن کر تیار هوجاتا هے تو (عربی میں) کہتے هیں تمام هوگیا۔ ورنہ چاهے اس کی دیواریں کھڑی کرلیں اوراس پر چھت بھی ڈال دیں مکان تمام نہ کہلائے گا جب تک اس کے تمام ضروری اجزاء اس میں لگ نہ جائیں جو اگر نہ هوں تو مکان سے استفادہ نهیں کیا جاسکتا۔ اس صورت میں کہتے هیں یہ عمارت تمام نهیں هوئی هے۔جب اس میں تمام اجزاء لگ جائیں اور وہ رہنے کے قابل هوجائے تو تب کہا جائے گا مکان اتمام کو پہنچا۔ لیکن لفظ"کامل" میں ایسا نهیں هے کہ (غیر کامل چیز) کوئی نقص بھی رکھتی هو بلکہ ممکن هے کہ اس کا کوئی جزو بھی کسی طرح کا نقص نہ رکھتا هو پھر بھی ابھی کامل نہ هو۔ مثال کے طور پر بچہ رحم مادر میں حد اتمام تک تو پہنچ جاتا هے یعنی اس کے جسم کے تمام اجزاء مکمل هوجاتے هیں، بچہ دنیا میں بھی آجاتا هے لیکن ابھی وہ کامل انسان نهیں هے۔ یعنی ابھی رشد کی آخری منزلوں تک نهیں پہنچا هے۔ رشد کرنے کا مطلب یہ نهیں هے کہ اس کے جسم کا کوئی جزو ناقص تھا۔ در حقیقت کامل اور تمام میں باہم کمّی و کیفی فرق هے۔

قرآن ایک طرف کہتا هے: "الیوم اکملت لکم دینکم" اس روز میں نے تمہارے دین کو کامل کردیا۔ اور دوسری طرف فرماتا هے: "واتممت علیکم نعمتی" میں نے اپنی نعمت بھی تم پر تمام کردی "ورضیت لکم الاسلام دیناً" اور آج میں نے اسلام کو ایک دین کے عنوان سے تمہارے لئے پسند کرلیا۔ یعنی یہ اسلام آج وہ اسلام هے جیسا خدا چاہتا تھا۔ ظاہر هے کہ اس سے مراد یہ نهیں هے کہ اسلام تو وهی پہلے هی والا اسلام هے لیکن اب اس کے سلسلہ میں خدا کا نظریہ بدل گیا هے! بلکہ اس کا مقصد یہ هے کہ اب جبکہ اسلام کمال و اتمام کی حد تک پہنچ گیا، اب یہ وهی دین هے جس میں رضائے خداشامل هے۔ خدا جیسا دین چاہتا تھا وہ یهی کامل شدہ اورتمام شدہ اسلام هے۔

آیت کا مفهوم اس سے زیادہ کچھ نهیں هے۔ صرف اس میں جو بات هے وہ یہ کہ لفظ الیوم سے مراد کون سا روز هے؟ کون سا روز اس حد تک اہم هے کہ قرآن کہتا هے اس روز دین کامل هوا اور نعمت خدا اس پر تمام هوگئی۔ یہ بہر حال بہت اہم دن هونا چاہئے یقیناً کوئی بہت هی غیر معمولی واقعہ اس روز رونما هوا هوگا۔ اور ظاہر هے یہ بات شیعہ یا سنّی سے تعلق نهیں رکھتی۔

اس قضیہ کے عجائبات میں سے ایک نکتہ یہ بھی هے کہ اس آیت کے قبل اور بعد کی آیتوں سے بھی کوئی ایسی چیز سمجھ میں نهیں آتی جو اس روز کو ثابت کرسکے۔ مختصر یہ کہ خود آیت کے لفظی قرائن سے "وہ روز" سمجھا نهیں جاسکتا۔ ایک موقع هے جب آیت سے پہلے کسی بہت ایم واقعہ یا حادثہ کا ذکر هوا هو اور بعد میں اسی حادثہ یا واقعہ کی "مناسبت سے" آج " کہا جائے۔ یہاں ایسا بھی نهیں هے۔ کیونکہ اس آیت سے پہلے بڑے عام اورسادہ سے احکام بیان کئے گئے هیں کہ کس جانور کا گوشت تم پر حلال هے اورکس کا حرام هے۔ مردار کا حکم کیا هے۔ خون اور سور کا گوشت تم پر حرام هے وغیرہ وغیرہ اور پھر اچانک ارشاد هوتا ھے:الیوم یئس الذین کفروا من دینکم فلا تخشوھم و اخشون الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دیناً اس آیت کےتمام هونے کے بعد هی دوبارہ گزشتہ مطالب کا بیان شروع هوجاتا هے کہ کون سا گوشت تم پر حرام هے اور اضطرار و مجبوری کی حالت میں اس کے استعمال میں کوئی حرج نهیں هے: فمن اضطرّ فی مخمصۃ غیر متجانف……یعنی ان آیات کا سلسلہ کچھ ایسا هے کہ اگر ہم زیر بحث آیت کو درمیان سے ہٹا بھی دیں تو اس کے ماقبل اور مابعد کی آیتیں آپس میں مربوط هوجائیں گی اور کوئی معمولی ساخلل یا خلابھی نظر نہ آئے گا۔ جیسا کہ اسی مضمون کی آیتیں مذکورہ آیت کے درمیان میں لائے بغیر قرآن میں مزید دوتین جگہ ذکر هوئی هیں اور مفهوم و مطلب بھی ایک دم کامل هے کهیں سے کوئی نقص یا خلا ظاہر نهیں هوتا۔

"الیوم " سے مراد کون ساروز؟

یهی وجہ هے کہ اس مقام پر شیعہ اورسنی دونوں مفسرین اس کوشش میں سر گرداں هیں کہ "الیوم" سے مراد کون ساروز هے؟ اس حقیقت کو معلوم کرنے کے دو طریقے هیں۔ ایک یہ کہ ہم قرائن کے ذریعہ سمجھیں یعنی مضمون کے قرینہ سے دیکھیں کہ یہ مضمون کس روز پر چسپان هوتا هے؟ اور کس روز سے متعلق ایسی اہم بات بیان کی جاسکتی هے؟ دوسرے یہ کہ تاریخ و حدیث کے ذریعہ سمجھیں کہ اس آیت کا شان نزول کیا هے؟ جو لوگ پہلی راہ کا انتخاب کرتے هیں وہ تاریخ و سنت وحدیث کے ذریعہ آیت کے شان نزول موقع و محل اور اس کی مناسبت سے کوئی سروکار نهیں رکھتے، وہ یہ کہتے هیں کہ ہم نے آیت کے مضمون کو دیکھ کر یہ نتیجہ اخذ کیا هے کہ یہ آیت زمانہ بعثت سے مربوط هے۔ لہٰذا "الیوم" سے مراد "اس روز" هے نہ کہ "آج"۔

یہاں یہ بات بھی عرض کردوں کہ یہ سورۂ مائدہ کی ابتدائی آیتیں هیں اور یہ سورۂ قرآن کا پانچواں سورہ هے جو، "یا ایھا الذین آمنوا اوفوا بالعقود" سے شروع هوتا هے۔ اور تمام مفسرین کا اس بات پر اتفاق هے کہ سورۂ مائدہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل هونے والا آخری سورہ هے یعنی مدنی سورہ هے۔ حتیٰ سورہ اذاجاء نصر اللہ و الفتح" کے بعد نازل هوا هے۔ البتہ مفسرین کے مطابق ایک دو آیتیں اس سورہ کے بعد بھی نازل هوئی هیں جنھیں دوسرے سوروں میں شامل کردیا گیا، لیکن یہ طے هے کہ اس سورہ کے بعد کوئی سورہ نهیں نازل هوا اوراس میں وہ آیتیں هیں جو آخر آخر پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل هوئی هیں۔

"الیوم" سے متعلق مختلف نظریات

۱۔ روز بعثت:ہم عرض کرچکے هیں کہ بعض مفسرین کے نزدیک "الیوم" سے مراد "اُس روز" ہے نہ کہ "آج"۔ جب ان سے سوال هوتا هے کہ اس کا قرینہ کیا هے؟ تو جواب ملتا هے کہ قرآن "الیوم" کہہ کر ایک روز کی اس قدر تعریف و توصیف کرتا هے "کہ اس روز میں نے اسلام کو ایک دین کے عنوان سے تمہارے لئے پسند کرلیا" لہٰذا قاعدتاً یہ بعثت پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا روز هی هونا چاہئے۔ اس کا جواب یہ دیا گیا کہ آپ اپنی بات کے لئے"رضیت لکم الاسلام دیناً" کو قرینہ بنارهے هیں، یہ قرینہ اس وقت درست هوتا جب اس سے پہلے کے جملے اس میں موجود نہ هوتے۔ کیونکہ اصل میں بات یہ کهی جارهی هے کہ آج میں نے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمتوں کو تمام کردیا (جبکہ) روز بعثت اس نعمت کے شروع هونے کا پہلا روز تھا۔ اور "رضیت لکم الاسلام دیناً" بھی اس وجہ سے ذکر کیا گیا هے کہ اب جبکہ اسلام کامل هوگیا اور اسلام کی نعمت اتمام کو پہنچ گئی تو میں نے اس "دین" کو جیسا میں چاہتا تھا تمہارے لئے پسند کرلیا۔ اس اعتبار سے "الیوم" روز بعثت نهیں هوسکتا۔

۲۔ روز فتح مکہ:روز بعثت کے بعد جس دوسرے روز کا احتمال دیا جاتا هے  (البتہ اس میں کوئی قرینہ نهیں پایا جاتا، صرف ایک احتمال هی هے، اور چونکہ بیان کیا گیا هے لہٰذا ہم بھی نقل کررهے هیں) وہ روز فتح مکہ هے۔ کہتے هیں کہ تاریخ اسلام میں ایک اور روز بھی بہت زیادہ اہم هے (اور صحیح بھی هے کہ فتح مکہ تاریخ اسلام کا بہت اہم دن هے) اور وہ فتح مکہ کا روز هے جس میں یہ آیت نازل هوئی:انّا فتحنالک فتحاً مبیناً لیغفر لک اللہ ماتقدّم من ذنبک وما تأخر"[2]

مکہ جزیرۃ العرب میں روحانی و معنوی حیثیت سے ایک عجیب منزلت کا حامل تھا۔ عام الفیل کے بعد یعنی جس سال اصحاب فیل نے مکہ پر حملہ کیا اور اس عجیب و غریب انداز سے شکست سے دوچار هوئے۔ جزیرۃ العرب کے تمام لوگ کعبہ کو ایک عظیم عبادت گاہ کی حیثیت سے بڑی هی گہری عقیدت کی نگاهوں سے دیکھنے لگتے تھے۔ اسی وجہ سے قریش میں غرور بھی پیدا هوگیا تھا۔ قریش اس (واقعہ) کا سہرا اپنے سر باندھتے تھے اور کہتے تھے"دیکھو یہ کعبہ هے جو اس قدر محترم هے کہ اتنا عظیم لشکر جب اسے ڈھا نے آیا تو اس بُری طرح آسمانی بلا میں گرفتار هوکہ ان میں کا ایک شخص بھی بچ نہ سکا دیکھو! ہم کس قدر اہم اور با عظمت هیں! اسی کے بعد قریش میں عجیب غرور و نخوت کا احساس پیدا هوگیا۔ اور عرب کے دوسرے قبائل میں بھی ایک طرح سے ان کی اطاعت و فرمانبرداری کی کیفیات پیدا هوگئیں۔ مکہ کے بازار کو بڑی شہرت حاصل هوئی چنانچہ قریش جو جی چاہتا تھا لوگوں پر حکم لگایا کرتے تھے اورلوگ بھی کعبہ سے اپنے اسی روحانی احساس و اعتقاد کی بنا پر چون وچرا ان کی اطاعت کرتے تھے۔

واقعۂ فیل کے بعد لوگوں میں یہ اعتقاد پیدا هوگیا تھا کہ کعبہ اس قدر عظیم هے کہ اب اس پر کسی کا قبضہ یا تسلط هونا محال هے۔ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ کو فتح کرلیا جبکہ نہ کوئی خونریزی هوئی نہ کوئی دشواری پیش آئی اور نہ کسی کو ذرا سا بھی گزند پہنچا۔ شاید پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو یہ چاہتے تھے کہ مکہ بغیر خونریزی کے فتح هوجائے ان کی نگاہ مبارک میں حرمت کعبہ کے علاوہ یہ مسئلہ بھی در پیش تھا۔ اگر کهیں اور جنگ هوئی هوتی،  اور سو مسلمان بھی قتل هوجاتے تو کوئی محسوس کرنے والی بات نہ هوتی۔  لیکن اگر فتح مکہ کے دوران مسلمانوں کو کوئی نقصان پہنچتا تو یهی کہا جاتا کہ دیکھو!(معاذاللہ) جو کچھ اصحاب فیل کے ساتھ پیش آیا وهی اصحاب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ بھی هوا۔ چنانچہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ کو اس طرح فتح کیا کہ ایک قطرہ خون نهیں بہا، نہ مسلمانوں کا اورنہ کفار کا، صرف خالد بن ولید نے اپنے ذاتی کینہ کی بنا پر مکہ کے ایک گوشہ میں مقابلہ کرنے والوں میں سے دو تین افراد کو قتل کردیا لیکن جب اس کی خبر پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کو معلوم هوئی تو آپ بری طرح ناراض هوئے کہ تم نے ایسا کیوں کیا؟!ساتھ هی آپ نے اس کے اس عمل سے بیزاری و برائت کا اظہار بھی کیا:خدایا جو عمل اس شخص نے انجام دیا هے میں اس سے بیزاری کا اظہار کرتا هوں میں اس عمل پر ہرگز راضی نهیں تھا۔

یهی وجہ تھی کہ فتح مکہ نے اہل عرب پر غیر معمولی نفسیاتی اثر ڈالا اور وہ کہنے لگے کہ لگتا هے حقیقت کچھ اور هی هے، محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آئے انهوں نے مکہ کو اتنی آسانی سے فتح بھی کرلیا اور ان کو کوئی گزند بھی نہ پہنچا۔ چنانچہ فتح مکہ کے بعد اہل عرب خود بخود تسلیم هونے لگے۔ گروہ کے گروہ آتے تھے اور اسلام اختیار کرتے تھے۔ قرآن فرماتا هے: لایستوی منکم من انفق من قبل الفتح وقاتل اولئک اعظم درجۃً من الذین انفقوا من بعد وقاتلوا۔[3] جن لوگوں نے فتح مکہ کے پہلے خدا کی راہ میں جانی و مالی فداکاری کی هے اور جنھوں نے فتح مکہ کے بعد یہ عمل انجام دیا دونوں برابر نهیں هیں۔ کیونکہ فتح مکہ سے قبل مسلمان اقلیت میں تھے (اور ان کی فدا کاریاں) ان کے کامل ایمان کی بنیاد پر تھیں۔ لیکن فتح مکہ کے بعد لوگ خود بخود آکر اسلام قبول کرنے لگے لہٰذا فتح مکہ کے بعد والے ایمان سے قیمتی فتح مکہ کے پہلے والا ایمان هے۔ لہٰذا فتح مکہ کا روز اسلام کی تاریخ کا بہت عظیم روز هے اس میں کسی کو کلام نهیں هے، اور ہم بھی اسے قبول کرتے هیں۔

لیکن بعض مفسرین کہتے هیں کہ وہ روز جس کو قرآن میں اتنی زیادہ اہمیت دی گئی هے کہ ارشاد هوتا هے:الیوم یئس الذین کفروا من دینکم فلا تخشوھم واخشون الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دیناً" شاید وہ فتح مکہ کا روز هو۔ (اورجیسا کہ عرض کیا جاچکا هے اس دعویٰ کی کوئی دلیل نهیں هے نہ لفظی قرینہ کی حیثیت سے اور نہ تاریخ کی حیثیت سے)

یہاں "الیوم" سےمراد فتح مکہ کا روز هے اس سے متعلق کسی قرینہ یا تاریخی ثبوت کے فقدان کے علاوہ خود صدر آیت اس مفهوم کی تائید نهیں کرتی۔ کیونکہ ارشاد هے:اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی" دین مکمل کردیا اور اپنی ساری نعمتیں تمام کردیں یعنی اب اسلام سے متعلق کوئی چیز باقی نهیں رہ گئی سب کچھ بیان کیا جاچکا هے۔ جبکہ ہم سب جانتے هیں کہ اسلام کے بہت سے احکام فتح مکہ کے بعد نازل هوئے هیں۔ یہ بات "اتممت علیکم نعمتی" سے میل نهیں کھاتی جب یہ کہا جاتا هے کہ میں نے یہ مکان مکمل کردیا تو بہر حال اس سے مراد ادھورا مکان نهیں هے۔ بہت سی آیتیں منجملہ ان کے پورا سورۂ مائدہ جو اتفاق سے کافی مفصل اور طویل هے اوراس میں خاصے احکام بیان کئے گئے هیں،فتح مکہ کے بعد نازل هوا هے۔ اور یہ آیت جو خود سورۂ مائدہ کا جزو هے فتح مکہ سے متعلق کیسے هوسکتی هے۔ جبکہ مکہ آٹھویں ہجری میں فتح هوا اور سورۂ مائدہ ۱۰ ھ کے اواخر میں نازل هوا هے۔ اگر کہا جائے کہ صرف یہ آیت فتح مکہ کے روز نازل هوئی۔ پھر بھی بات اتمام نعمت سے میل نهیں کھاتی۔

اس آیت میں "الیوم" کے "روز فتح مکہ"قرار دیئے جانے پر ایک اعتراض اور بھی هے۔ وہ یہ کہ آیت کہہ رهی هے:الیوم یئس الذین کفروا من دینکم" آج کافرین تمہارے دین سے مایوس هوگئے۔ یعنی اب وہ تمہارے دین پر تسلط حاصل کرنے سے مایوس هوگئے۔ سوال یہ هے کہ کیا فتح مکہ کے روز ایسا هی هوا؟ یہ صحیح هے کہ اسلام کی اس کامیابی نے کفار پر بہت گہرا اثر ڈالا لیکن حقیقتاً کیا وہ ایسا هی روز تھا کہ کفار اس دین کے نابود کرنے کے سلسلہ میں بالکل مایوس هوگئے؟ ہرگز نهیں۔



[1] سورۂ مائدہ/ آیت۳

[2] سورۂ فتح، آیت نمبر ۱،۲

[3] سورۂ حدید، آیت/۱۰

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

امیر المومنین علی علیہ السّلام کی حیات طیبہ
روزہ‏ داروں کو خوشخبری، مستحب روزہ کی فضیلت پر ...
جنت کے وعدے کی وجہ سے سابقون اوّلون کی نجات پر ...
محسوس فطریات
قرآن کریم پیغمبر اسلام کا سب سے بڑا معجزہ ہے
راہ خدا میں انفاق کے سبق آموز قصے(حصہ دوم)
وحی کی حقیقت اور اہمیت
رمضان المبارک کے سولہویں دن کی دعا
حرام مہینوں میں جنگ اورخدا کی راہ سے روکنا
اخلاق کی قسمیں

 
user comment