اردو
Friday 29th of March 2024
0
نفر 0

تا کہ خدا وند عالم آپ کے پچھلے اور اگلے گناهوں کو بخش دے۔

تا کہ خدا وند عالم آپ کے پچھلے اور اگلے گناهوں کو بخش دے۔

ان آیتوں سے معلوم هوتا هے کہ عصمت ایک نسبی امر هے۔ گویا وہ اپنی حد میں اور ہم اپنی حد میں۔ پس عصمت کی اصل و ماهیت گناہ سے ایمان کے درجہ اور کمال ایمان کی طرف پلٹتی هے۔ انسان ایمان کے کسی بھی درجہ میں هو لیکن جس موضوع سے متعلق وہ کامل ایمان رکھتا هے۔ یعنی:

" وَلَو لَا اَنۡ رَّاٰ بُرۡھَانَ رَبِّہِ " کے درجہ پر فائز هے اور دلیل پروردگار کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا هے۔ اس میں وہ لامحالہ معصوم هے۔ نہ کہ خود معصوم بھی ہماری هی طرح هے کہ وہ گناہ و معصیت کی طرف قدم بڑھانا چاہتا هے لیکن اللہ کی طرف سے مامور کوئی فرشتہ اس کی راہ میں حائل هوجاتا هے اور اسے روک دیتا هے۔ اگر ایسا هے تو مجھ میں امیر المومنین (علیه السلام) میں کوئی فرق نهیں هے کیونکہ  میں بھی گناہ کی طرف مائل هوتا هوں اور ( معاذاللہ ) وہ بھی مائل هوتے هیں، فرق یہ هے کہ ان پر ایک ملک معین هے جو انهیں اس کام سے روکتا هے اور ہم پر اس طرح کا کوئی مامور نهیں هے۔ اگر انسان کو گناہ سے روکنے کے لئے کوئی خارجی مامور بھی موجود هو تو یہ کوئی کمال کی بات نہ هوئی۔ اس کی مثال یوں هے کہ ایک شخص چوری کرتا هے اور میں چوری نهیں کرتا۔ لیکن میں جو چوری نهیں کرتا اس کا سبب یہ هے کہ ہمارے اعمال کا نگراں ایک شخص ہمیشہ ہمارے  ساتھ هے۔ اس صورت میں، میں بھی اسی کی طرح چور هوں فرق یہ هے کہ کوئی نگراں اسے اس کام سے نهیں روکتا اور میرے حرکات و سکنات کا نگراں میری راہ میں حائل هے۔ یہ کوئی کمال کی بات نهیں هوئی۔

مسئلۂ عصمت میں اہم اور کلّی مسئلہ گناہ سے معصوم هونے کا مسئلہ هے۔ خطا سے معصوم هونا ایک دوسرا مسئلہ هے اور اس کی بھی دو حیثیتیں هیں۔ ایک احکام کی تبلیغ میں خطا کا مسئلہ هے مثلاً ہم یہ کهیں کہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمارے لئے احکام بیان فرمائے هیں لیکن شاید اس میں خطا یا اشتباہ سے کام لیا هے۔ شاید خدا وند عالم نے ان پر وحی کسی اور  شکل میں نازل فرمائی تھی لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اشتباہاً اسے دوسری طرح سے بیان فرمایا۔ بالکل یوں هی جیسے ہم خطا کرتے هیں۔ یعنی ہم سے کہا جاتا ہےکہ جاؤ یہ پیغام پہنچادو اور ہم جاکر اس کا الٹا پیغام بیان کردیتے هیں۔یعنی اس امکان پر کہ ممکن هے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تبلیغ احکام میں خطا یا اشتباہ سے کام لیا هو،سرے سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی باتوں پر اعتماد هی نہ هو، قطعی ایسی کوئی بات نهیں هے۔

اب رهی تمام مسائل میں معصوم سے خظا کی بات تو یہاں انجینیئر صاحب نے اپنی سرعت  فیصلہ کا ثبوت دیتے هوئے امیر المومنین علیہ السلام پر ظلم کیا هے اور واقعی یہ بہت بڑا ظلم هے۔آپ نے کیسے تیزی کے ساتھ یہ فیصلہ کرلیا کہ اگر آپ امیر المومنین علیہ السلام کی جگہ پر هوتے تو عبد اللہ ابن عباس کا انتخاب نہ کرتے، اور……؟ اسی طرح کے تاریخی مسائل میں ظنی وگمانی فیصلوں کے اظہار میں تو کوئی ہرج نهیں هے۔ مثلاً انسان کسی شخص کے بارے میں اظہار خیال کرے کہ میں سوچتا هوں اگر فلاں شخص پانچ سو سال پہلے اُس کام کے بجائے یہ کام کرتا تو بہتر تھا،  اور کوئی اس سے یہ کهے کہ کیا قطعی ایسا هے؟ تو وہ جواب دے کہ میرا یهی خیال هے؟ تو اس میں کوئی ہرج نهیں هے۔ لیکن ان مسائل میں کوئی قطعی فیصلہ کرنا امیر المومنین علیہ السلام هی کی نسبت نهیں؟ دوسرے افراد کی نسبت بھی صحیح نهیں هے۔ 

حضرت علیہ السلام ان واقعات و مسائل میں خود حاضر و ناظر تھے اور عبد اللہ بن عباس کو ہم اور آپ سے بہتر جانتے تھے، یوں هی اپنے دوسرے اصحاب کو بھی ہم سے اور آپ سے زیادہ بھتر طور پر پہچانتے تھے۔اور ہم اپنی جگہ بیٹھ کر قضاوت کریں کہ اگر حضرت علی عبد اللہ بن عباس کی جگہ پر کسی دوسرے کو منتخب فرماتے تو وہ اس کام کو بہتر طور پر انجام دیتا۔  یہ در اصل اس طرح کے مسائل میں عجولانہ قضاوت کی نشانی هے۔  مزید یہ کہ آپ نے خود اپنے بیانات میں جن سے ہم ہمیشہ استفادہ کرتے رهے هیں، برابر یہ بات ذکر کی هے کہ علی علیہ السلام ایک مخصوص سیاست پر گامزن تھے اور نہ وہ خود چاہتے تھے نہ ان کے لئے سزاوار هی تھا کہ ذرہ برابر بھی اس سیاست سے الگ هوتے اور یہ وہ راہ سیاست تھی جس میں ان کے پاس ناصر و مددگار نهیں تھے۔ حضرت علیہ السلام خود بھی ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ افسوس میرے پا س افراد نهیں هیں۔ یهی عبد اللہ بن عباس اور دوسرے افراد حضرت علی علیہ السلام کی خدمت میں آتے تھے اور ان سے اپنی روش میں لوچ اور نرمی پیدا کرنے کی درخواست کرتے تھے یعنی وهی طرز عمل اپنانے کو کہتے تھے جسے آج کی دنیا میں سیاست کہتے هیں۔ آپ کم از کم یهی ثابت کیجیئے کہ حضرت علی (علیه السلام) کے پاس ان کے ہم فکر و ہم نوا کافی افراد موجود تھے اور آپ علیہ السلام نے ان کے درمیان اشخاص کے انتخاب میں اشتباہ سے کام لیا۔ میں تو ثاہت نهیں کرسکتا کہ حضرت علی (علیه السلام) کے پاس حسب ضرورت افراد موجود رهے هوں۔  میں بس اسی قدر جانتا هوں کہ علی علیہ السلام جنهیں پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خلافت کے لئے معین فرمایا تھا۔ جب لوگوں نے خلافت پر قبضہ کر لیا تو اس قدر احتجاج اور شکوہ کرتے نظر آتے هیں کہ لوگوں نے میرا حق مجھ سے چھین لیا، لیکن عثمان کے بعد جب لوگ آپ کی بیعت کے لئے آپ کے پاس آتے هیں تو آپ خود کو اس امر سے دور رکھنے کی کوشش کرتے دکھائی دیتے هیں اور فرماتے هیں:

"دَعَوۡنِی وَالتَمِسُوا غَیۡریۡ فَاِنَّا مُسۡتَقۡبِلُونَ اَمۡراً لَہ وُجُوہٌ وَاَلۡوَان…… وَاِنَّ الآفاقَ قَدۡ اَغَامَتۡ وَالۡمَحَجَّۃَ قَدۡ تَنَکَّرَتۡ "[1]

مجھے چھوڑ دو اور ( اس خلافت کے لئے ) کسی دوسرے کو ڈھونڈ لو۔ بلا شبہ ہمارے سامنے ایک ایسا معاملہ هے جس کے کئی رُخ اور کئی رنگ هیں، جسے نہ دل برداشت کرسکتے هیں اور نہ عقلیں مان سکتی هیں۔ فضائیں تاریک هوچکی هیں اور راستہ پہچاننے میں نهیں آتا"

مفهوم یہ هے کہ، حالات اب خراب هوچکے هیں، اب کام نهیں کیا جاسکتا یعنی میرے پاس افراد نهیں هیں، میرے رفقاء تمام هوگئے اب میرے کام کے آدمی نهیں رهے (جن کی مدد سے معاشرہ کی) اصلاح کرسکوں۔ اس کے بعد فرماتے هیں:

لَوۡلَا حُضُوۡر الۡحَاضِر وَقیَام الحُجَّۃِ لِوُجُودِ النَّاصِرِ……

اب مجھ پر حجت تمام هوگئی میں تاریخ کے روبرو کوئی عذر نهیں رکھتا تاریخ میری یہ بات نهیں مانے گی، کہا یهی جائے گا کہ علی علیہ السلام نے موقع ہاتھ سے کھو دیا، اس کے باوجود کہ یہ موقع میرے لئے کوئی موقع نهیں هے۔۔۔۔۔۔۔ لیکن تاریخ کا منھ بند کرنے کے لئے کہ یہ نہ کہا جائے کہ بہترین موقع تھا جسے علی علیہ السلام نے کھو دیا۔۔۔۔۔۔۔۔اس منصب کو قبول کرتا هوں۔

لہٰذا ہم دیکھتے هیں کہ آپ نے خود اس کا اظہار فرمایا کہ میرے پاس آدمی نهیں هیں اور یہ میری خلافت کا موقع نهیں هے۔

انسان ہر شخص کے سلسلہ میں شک و تردید کا شکار هوسکتا هے لیکن خود حضرت علی علیہ السلام کے لئے تاریخ کو بھی اس بات میں شک نهیں هے کہ آپ خود کو دوسروں کی بہ نسبت خلافت کا سب سے زیادہ حقدار سمجھتے تھے اور اہل سنّت بھی یہ بات تسلیم کرتے هیں کہ علی علیہ السلام خلافت کے لئے خود کو ابوبکر و عمر وغیرہ…… سے زیادہ حقدار سمجھتے تھے۔ پھر یہ کیا هوا کہ جو علی علیہ السلام اپنے آپ کو ابوبکر و عمر سے خلافت کا زیادہ حقدار سمجھے، جب لوگ عثمان کے بعد خلافت کے لئے اس کے پاس جائیں تو وہ پیچھے ہٹتا هوا نظر آئے اور یہ کهے کہ:۔

تمہارا امیر بننے سے بہتر هے کہ میں اس کے بعد بھی تمہارا مشیر هی بن کر رهوں۔ اس سے صاف ظاہر هوتا هے کہ حضرت علی علیہ السلام کے پاس ایسے افراد نهیں تھے۔ اب اس کے اسباب و علل کیا تھے، یہ ایک دوسری بحث هے۔

اب رہا:" وَیُؤتُوۡن الزَّکوٰۃَ وَھُمۡ رَاکِعُوۡن" کا مسئلہ تو اول یہ جو انهوں نے فرمایا کہ زکات انگوٹھی پر نهیں هوتی، اس کا جواب یہ هے کہ کلی طور پر کارِ خیر کے لئے ہر طرح کے انفاق کو زکات کہتے هیں۔ آج کل جو فقہا کی عرف میں زکات کی اصطلاح رائج هے اس سے مراد زکات واجب هے۔ ایسا نهیں هے کہ قرآن کریم میں جہاں بھی "یُقِیۡمُونَ الصَّلوٰۃَ وَیُؤتُونَ الزَّکوٰۃَ " آیا هو اس سے مراد یهی زکوٰۃ واجب هے۔ زکات کا مطلب هے مال کا پاک و صاف کرنا۔ حتیٰ کہ اس سے مراد روح اور نفس کا پاک کرنا بھی ہے۔قرآن کلی طور پر مالی خیرات کو مال کی زکات یا روح و نفس کی زکات کہتا ہے۔ چنانچہ لفظ صدقہ کا مفهوم بھی اسی قدر وسعت رکھتا هے آج صدقہ کا ایک خاص مفهوم هے مثلاً کہتے هیں صدقۂ سرّی (چھپا کر صدقہ دینا) لیکن قرآن ہر کار خیر کو صدقہ کہتا هے۔ اگر آپ ایک اسپتال تعمیر کریں یا کوئی کتاب لکھیں جس کا فائدہ عام طور سے لوگوں کو پہنچتا هو۔ قرآن کی نظر میں وہ صدقہ هے "صدقۃ جاریۃ"  ایک جاری صدقہ۔ یهی وجہ هے کہ اہل سنّت نے بھی جب مزکورۃ آیت سے اخذ شدہ مفهوم پر اعتراض کرنا چاہا هے تو اس لفظ پر ایسا کوئی اعتراض نهیں کیا هے کہ زکات انگوٹھی سے متعلق نهیں هوتی۔ کیونکہ وہ ادبیات عرب سے واقف هیں اور جانتے هیں کہ لفظ زکات، زکات واجب سے مخصوص نهیں هے۔

اب سوال یہ هے کہ عمل حالتِ رکوع میں کیوں اور کیسے انجام پایا؟ یہ اعتراض فخرالدین رازی جیسے قدیم مفسرین نے بھی اٹھایا هے کہ علی علیہ السلام ہمیشہ حالت نماز میں اس قدر کھو جاتے تھے کہ انهیں ارد گرد کا احساس بھی نہ رہتا تھا۔ پھر آپ علیہ السلام یہ کیسے کہتے هیں کہ نماز کی حالت میں یہ عمل انجام پایا؟ جواب یہ هے کہ

اول تو: علی کا نماز کی حالت میں اپنے آپ سے بے خبر هوجانا ایک حقیقت هے، لیکن ایسا نهیں هے کہ اولیائے خدا کے تمام حالات و کیفیات ہمیشہ ایک هی جیسے رهے هیں۔ خود پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے دونوں کیفیتیں بیان کی جاتی هیں۔ کبھی نماز کی حالت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وہ کیفیت طاری هوجاتی تھی کہ اذان کے تمام هونے کی تاب بھی نہ رہتی تھی فرماتے تھے:"اَرۡحِنَایَا بلَالُ” ائے بلال جلد اذان ختم کرو کہ ہم نماز شروع کریں اور کبھی نماز کی حالت میں هوتے تھے، سجدہ کے لئے سر مبارک کو خاک پر رکھتے تھے اور آپ کے نواسے امام حسن یا امام حسین آکر آپ کی پشت مبارک پر سوار هوجاتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پورے اطمینان کے ساتھ یوں هی ٹھہرے رہتے تھے کہ یہ بچہ کهیں گر نہ پڑے اور جب تک نواسہ اتر نہ آتا تھا سجدہ کو طول دیتے تھے۔

ایک مرتبہ پیغمبر اکرم(ص) نماز میں قیام کی حالت میں تھے۔ نماز کی جگہ پر سامنے گویا کسی نے تھوک دیا تھا۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک قدم آگے بڑھایا اور پاؤں سے اسے مٹی میں چھپادیا اس کے بعد اپنی جگہ واپس پلٹ آئے۔ فقہاء نے اس واقعہ کی روشنی میں نماز سے متعلق بہت سے مسائل اخذ کئے هیں۔ سید بحرالعلوم فرماتے هیں:۔

وَمَشیُ خَیۡرا لخَلۡق فِی الۡمِحۡرَابِ          یُفۡتَحُ     مِنۡہُ     اکۡثَرُ   الۡاَبۡوَاب

مطلب یہ هے کہ نماز کی حالت میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دو قدم آگے بڑھے۔ وہ عمل انجام دیا اور واپس پلٹ آئے اس عمل ان بہت سے مسائل کو حل کردیا کہ نماز کی حالت میں کس حد تک اضافی عمل جائز هے یا جائز نهیں هے۔ اسی طرح اور بہت سی باتوں کا حل مل گیا۔ چنانچہ ان حضرات کے حالات و کیفیات مختلف رهے هیں۔

اس سلسلہ میں دوسرا مطلب جو عرفانی هے یہ هے کہ وہ افراد جو عرفانی مزاق رکھتے هیں ان کا اعتقاد هے کہ اگر استغراق و انجذاب کی کیفیت اپنے کمال پر هو تو اس میں "بر گشت" کی حالت پائی جاتی هے یعنی اس صورت میں انسان خدا کی ذات میں مستغرق هونے کے ساتھ هی ماسواے اللہ میں بھی مشغول رہتا هے۔ یہ اہل عرفان کا خیال هے اور میں بھی اُسے  تسلیم کرتا هوں۔ لیکن اس جلسہ میں شاید بہت زیادہ قابل قبول نہ هو کہ میں اسے عرض هی کردوں۔ یہ خلعِ بدنی کے مسئلہ کی مانند هے۔ جو افراد اس مرحلہ میں تازہ وارد هوتے هیں ایک لمحہ یا دو لمحہ ایک گھنٹہ تک اپنے آپ سے بے خبر یا  اپنے جسم سے الگ هوجاتے هیں۔ بعض افراد  بہر حال میں اپنے جسم سے الگ یا خود سے بے خبر رہتے هیں ( البتہ میں اس کا معتقد هی نهیں بلکہ عینی گواہ بھی هوں) مثال کے طور پر اس وقت ہمارے اور آپ کے ساتھ بیٹھے هیں اپنے جسم سے دور الگ اور لا تعلق هیں۔

اہل عرفان کی نظر میں یہ حالت و کیفیت کہ نماز کے دوران پاؤں سے تیر نکال لیا جائے اور انسان متوجہ نہ هو، اس حالت و کیفیت سے ناقص تر هے جس میں انسان نماز کے دوران فقیر و سائل کی طرف بھی متوجہ هو۔ ایسا نهیں هے کہ یہاں وہ خدا سے غافل هے اور فقیر کی طرف متوجہ هے بلکہ اس کی توجہ خدا کی طرف اس قدر کامل هے کہ اس حالت میں وہ تمام عالم کو اپنے سامنے موجود پاتا هے۔ لہٰذا ان تمام قرائن کی موجودگی میں ان حقائق سے انکار نهیں کیا جاسکتا۔ 

 



[1] ۔ نہج البلاغہ فیض الاسلام۔ خطبہ۹۱

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

عقل کا استعمال اور ادراکات کا سرچشمہ
عید مباہلہ
آیہٴ” ساٴل سائل۔۔۔“ کتب اھل سنت کی روشنی میں
انہدام جنت البقیع تاریخی عوامل اور اسباب
ماہ رمضان کے دنوں کی دعائیں
جمع بین الصلاتین
ہم اور قرآن
نہج البلاغہ کی شرح
شفاعت کا مفہوم
شب قدر کو کیوں مخفی رکھا گیا؟

 
user comment