اردو
Friday 19th of April 2024
0
نفر 0

عرفاء کی باتیں

عرفاء کی باتیں

دوسری آیتیں بھی هیں جن پر گہرائی کے ساتھ غور وفکر سے مطلب واضح اور حقیقت روشن هوتی هے۔ یهی وجہ هے کہ عرفاء ایک زمانہ سے اس سلسلہ میں اظہارِ خیال کرتے رهے هیں۔ در اصل یہ شیعی نقطۂ نظر هے۔ لیکن عرفاء نے اسے بڑے حسین انداز میں بیان کیا هے وہ کہتے هیں کہ امامت و ولایت کا مسئلہ باطن شریعت سے تعلق رکھتا هے۔ یعنی وهی اس تک رسائی حاصل کرسکتا هے جو کسی حد تک شریعت اور اسلام کی گہرائیوں سے آشنا هو یعنی اس نے پوست اور چھلکے سے گزر کر اس کے مغز و جوہر تک رسائی حاصل کرلی هو اور بنیادی طور پر اسلام میں امامت و ولایت کا مسئلہ لُبّی اور اصل مسئلہ رہا هے یعنی بہت مدیرانہ فکر عمیق رکھنے والے افراد هی اسے درک اور سمجھ سکے هیں۔ دوسروں کو بھی اس گہرائی کے ساتھ غور وفکر کی دعوت دی گئی هے۔ یہ اور بات هے کہ کچھ لوگ اس مفهوم تک پہنچتے هیں اور کچھ نهیں پہنچ پاتے۔

اب ہم اس سے متعلق بعض دیگر آیات پر توجہ دیتے هیں ہمارا مقصود یہ هے کہ شیعہ جو دلائل پیش کرتے هیں ہم ان سے آگاہ هوں اور ان کی منطق کو سمجھنے کی کوشش کریں۔

امامت شیعوں کے یہاں نبوّت سے ملتا جلتا مفهوم

قرآن میں ایک آیت ھے جو ان ھی مزکورہ آیات کے سلسلہ کا ایک حصہ بھی هے اور بظاہر عجیب آیت هے۔ البتہ یہ خود امیرالمومنین(علیہ السلام) کی ذات سے متعلق نهیں هے بلکہ مسئلۂ امامت سے متعلق هے، ان هی معنٰی میں هے  جسے ہم ذکر کرچکے هیں اور یہاں اشارتاً اسے دوبارہ ذکر کرتے هیں۔

ہم کہہ چکے هیں کہ عہد قدیم سے هی اسلامی متکلمین کے درمیان ایک بہت بڑا اشتباہ موجود رہاهے اور وہ یہ کہ انهوں نے اس مسئلہ کو اس انداز میں اٹھایا هے کہ : امامت کے شرائط کیا هیں ؟ انهوں نے مسئلہ کو یوں فرض کیا کہ امامت کو ہم بھی قبول کرتے هیں اور اہل سنت بھی لیکن اس کے شرائط کے سلسلہ میں ہم دونوں میں اختلاف پایا جاتا هے؛ ہم کہتے هیں شرائط امام یہ هیں کہ وہ معصوم هو اور منصوص هو یعنی اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے معیّن و مقرر کیا گیا هو۔ اور وہ کہتے هیں ایسا نهیں هیں جب کہ شیعہ جس امامت کا عقیدہ رکھتے هیں، اہل سنت سرے سے اس کے معتقد نهیں هیں اہل سنت امامت کے عنوان سے جس چیز کا عقیدہ رکھتے هیں وہ امامت کی دنیوی حیثیت هے جو مجموعی طور سے امامت کا ایک پہلو هے جیسے نبوت کے سلسلہ میں هے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایک شان یہ بھی تھی کہ وہ مسلمانوں کے حاکم تھے لیکن نبوّت خود حکومت کے مساوی اور ہم پلّہ نهیں هے۔ نبوت خود ایک ایسی حقیقت اور ایسا منصب هے جس کے ہزاروں پہلو اور ہزاروں معانی و مطالب هیں۔ پیغمبر کی شان یہ هے کہ اس کی موجودگی میں کوئی اور مسلمانوں کا حاکم نهیں هوسکتا۔ وہ نبی هونے کے ساتھ مسلمانوں کا حاکم بھی هے، اہل سنت کہتے هیں کہ امامت کا مطلب حکومت هے اور امام وهی هے جو مسلمانوں کے درمیان حاکم هو، یعنی مسلمانوں میں کی ایک فرد جسے حکومت کے لئے انتخاب کیا جائے گویا یہ لوگ امامت کے سلسلہ میں حکومت کے مفهوم سے آگے نهیں بڑھے۔ لیکن یهی امامت شیعوں کے یہاں ایک ایسا مسئلہ هے جو بالکل نبوت کے هی قائم مقام قدم بقدم هے بلکہ نبوت کے بعض درجات سے بھی بالاتر هے یعنی انبیاء اولوالعزم وهی هیں جو امام بھی هیں۔ بہت سے انبیاء امام تھے هی نهیں۔ انبیاء اولوالعزم اپنے آخری مدارج میں منصب امامت پر سرفراز هوئے هیں۔

غرض یہ کہ جب ہم نے اس حقیقت کو مان لیا کہ جب تک پیغمبر موجود هے کسی اور کے حاکم بننے کا سوا هی نهیں اٹھتا۔ کیونکہ وہ بشریت سے مافوق ایک پہلو کا حامل هے، یوں هی جب تک امام موجود هے حکومت کے لئے کسی اور کی بات هی پیدا نهیں هوتی۔ جب وہ نہ هو (چاهے یہ کهیں کہ بالکل سے موجود هی نهیں هے یا ہمارے زمانہ کی طرح نگاهوں سے غائب هے) اس وقت حکومت کا سوال اٹھتا هے کہ حاکم کون هے؟ ہمیں مسئلہ امامت کو مسئلۂ حکومت میں مخلوط نهیں کرنا چاہئیے کہ بعد میں یہ کہنے کی نوبت آئے کہ اہل سنت کیا کہتے هیں اور ہم کیا کہتے هیں۔ یہ مسئلہ هی دوسرا هے۔ شیعہ کے یہاں امامت بالکل نبوت سے ملتا جلتا ایک مفهوم هے اور وہ بھی نبوت کے عالی ترین درجات سے۔ چنانچہ ہم شیعہ امامت کے قائل هیں اور وہ سرے سے اس کے قائل نهیں هیں۔ یہ بات نهیں هے کہ قائل تو هیں مگر امام کے لئے کچھ دوسرے شرائط تسلیم کرتے هیں۔

امامَت ابراهیم علیہ السلام کی ذرّیت میں

یہاں ہم جس آیت کی تلاوت کرنا چاہتے هیں وہ امامت کے اُسی مفهوم کو ظاہر کرتی هے جسے شیعہ پیش کرتے هیں۔ شیعہ کہتے هیں، اس آیت سے یہ ظاہر هوتا هے کہ امامت ایک الگ هی حقیقت هے، جو نہ صرف پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد بلکہ انبیاء ماسلف کے زمانے میں بھی موجود رهی هے اور یہ منصب حضرت ابراهیم کی ذرّیت میں تا صبح قیامت باقی هے وہ آیت یہ هے: "وَاِذِابۡتَلیٰ اِبۡرَاھِیۡمَ ربُّہُ بِکَلِمَاتٍ فَاَتَمَّھُنَّ قَالَ اِنَّی جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَاماً قَالَ وَمِنۡ ذُرِّیَّتِیۡ قَالَ لَا یَنَالُ عَھۡدِی الظَّالِمِیۡنَ"[1] جب خداوند عالم نے چند امور و احکام کے ذریعہ ابراهیم کو آزمایا اور وہ ان آزمائشوں میں پورے اُترے تو (خدا نے) فرمایا:میں بلا شبہ تمهیں لوگوں کا امام بناتا هوں (ابراهیم علیہ السلام نے) کہا: اور میری ذرّیت سے: فرمایا؛ میرا عھد ظالموں تک نهیں پهونچے گا۔

ابراهیم معرض آزمائش میں

حجاز کی جانب ہجرت کا حکم

خود قرآن حکیم نے جناب ابراهیم علیہ السلام کی آزمائشوں سے متعلق بہت سے مطالب ذکر کئے هیں۔ نمرود اور نمرودیوں کے مقابلہ میں ان کی استقامت و پائداری کہ نارِ نمرودی میں جانے سے نہ ہچکچائے اور ان لوگوں نے انهیں آگ میں ڈال بھی دیا اور اس کے بعد پیش آنے والے دوسرے واقعات۔ ان هی آزمائشوں میں خداوند عالم کا ایک عجیب و غریب حکم یہ بھی تھا جسے بجالانا سوائے اس شخص کے جو خدا کے حکم کے سامنے مطلق تعبّد و بندگی کا جذبہ رکھتا هو اور بے چون و چرا سرِ تسلیم خم کردے کسی اور کے بس کی بات نهیں هے۔ ایک بوڑھا جس کے کوئی اولاد نہ هو اور ستّر اسّی سال کے سن میں پہلی مرتبہ اس کی زوجہ ہاجرہ صاحب اولاد هوتی هے اور ایسے میں اسے حکم ملتا هے کہ شام سے ہجرت کرجاؤ اور حجاز کے علاقہ میں اس مقام پر جہاں اس وقت خانۂ کعبہ هے، اپنی اس بیوی اور بچہ کو چھوڑدو اور خود وہاں سے واپس چلے آؤ۔ یہ حکم سوائے مطلق طور پر تسلیم و رضا کی منطق کے کہ چونکہ یہ حکم خدا هے لہٰذا میں اس کی اطاعت کررہا هوں (جسے حضرت ابراهیم نے محسوس کیا تھا کیونکہ آپ پر وحی هوتی تھی) کسی اور منطق سے میل نهیں کھاتا۔

"رَبَّنَا اِنِّیۡ اَسۡکَنۡتُ مِنۡ ذُرِّیَّتِیۡ بِوَادٍ غَیۡرَ ذِیۡ زَرۡعٍ عِنۡدَ بَیۡتِکَ المُحَرَّمِ رَبَّنَا لِیُقِیۡمُوۡاالصَّلاۃ" [2] پروردگارا : میں نے اپنی ذرّیت کو اس بے آب گیاہ وادی میں تیرے محترم گھر کے نزدیک ٹھرا دیا تاکہ یہ لوگ نماز ادا کریں البتہ آپ خود وحی الٰهی کے ذریعہ یہ جانتے تھے کہ انجام کار کیا هے ؟ لیکن منزل امتحان سے بخوبی گزر گئے۔

بیٹے کو ذبح کردو

ان سب سے بالا تر بیٹے کو ذبح کرنے کا مرحلہ هے۔ آپ کو حکم دیا جاتا هے کہ اپنے ہاتھوں سے اپنے بیٹے کو منیٰ میں ذبح کردو۔ وهیں جہاں آج ہم جناب ابراهیم علیہ السلام کی اس بے مثال اطاعت و بندگی اور تسلیم و رضا کی یاد میں جانوروں کی قربانی کرتے هیں (چونکہ خدا نے حکم دیا هے لہٰذا انجام دیتے هیں۔ یہاں چون و چرا کی گنجائش نهیں هے۔) دو تین مرتبہ جب خواب کے عالم میں آپ پر وحی هوتی هے اور آپ کو یقین هوجاتا هے کہ یہ وحی پروردگار هے تو اپنے بیٹے کے سامنے یہ بات رکھتے هیں اور اس سے مشورہ کرتے هیں۔ بیٹا بھی بلا کسی حیل وحجت اور بہانے کے کہتا هے: " یَا اَبَتِ افۡعَلۡ مَاتُؤۡمَرُ " اے پدر بزرگوار جو کچھ آپ کو حکم دیا گیا هے اسے بجالائیے "سَتَجِدُنِیۡ اِنۡ شَاءَ اللہُ مِنَ الصَّابِرِیّنَ " [3] آپ انشاء اللہ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے۔ قرآن کیسا عجیب اور حیرت انگیز منظر پیش کرتا هے:" فَلَمَّا اَسۡلَمَا " جب یہ دونوں تسلیم هوگئے یعنی جب انهوں نے ہمارے حکم کے آگے مکمل طور پر اطاعت و بندگی کا اظہار کیا: " وَ تَلَّہ لِلۡجَبِیۡنِ " اور ابراهیم نے اپنے فرزند کو پیشانی کے بھل لٹایا (یعنی اس آخری مرحلہ پر پہنچ گئے جہاں نہ ابراهیم علیہ السلام کو بیٹے کے ذبح کرنے میں شک رہا اور نہ اسماعیل علیہ السلام کو ذبح هوجانے میں کوئی شبہ باقی رہا باپ بھی اطمینانِ کامل کی منزل پر اور بیٹا بھی یقینِ کامل کے درجہ پر) " وَنَا دَیۡنَاہُ انۡ یا اِبۡرَاهِیمُ قَدۡ صَدَّقۡتَ الرُّؤۡیَا"[4] تو ہم نے ندادی اور وحی کی کہ اے ابراهیم علیہ السلام تم نے خواب کو سچ کر دکھایا۔ یعنی ہمارا مقصد فرزند کو ذبح کرنا نهیں تھا۔ ہم نے نهیں چاہا تھا کہ اسماعیل علیہ السلام ذبح کردیئے جائیں، یہ نهیں فرمایا کہ اس حکم کو عملی طور پر انجام دینا لازمی نهیں هے بلکہ فرمایا تم نے انجام دے دیا، کام ختم هوگیا، کیونکہ ہم یہ نهیں چاہتے تھے کہ اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کردیا جائے بلکہ ہمارا مقصد اسلام و تسلیم کی نمود اور تم دونوں باپ بیٹوں کی تسلیم و رضا کا اظہار تھا جو انجام پا گیا۔

قرآن کے مطابق خدا وند عالم نے جناب ابراهیم علیہ السلام کو عالم پیری میں نعمت اولاد سے نوازا۔ قرآن حکایت کرتا هے کہ جب فرشتوں نے آکر ان کو یہ خبر دی کہ خداوند عالم آپ کو فرزند عطا کرے گا تو ان کی زوجہ نے فرمایا :" ءاَلِدُ وَاَنَا عَجُوۡز وَ ھٰذا بَعۡلِیۡ شَیۡخاً…… " میں بوڑھی عورت صاحب اولاد هوں گی جب کہ یہ میرا شوہر بھی، بوڑھا هے؟ "قَالُوۡا اَتَعۡجَبِیۡنَ مِنۡ اَمۡرِ اللہِ رحۡمَتُ اللہِ وَبَرَکَاتُہ، عَلَیۡکُمۡ اَھۡلَ البَیۡتِ " [5] فرشتوں نے ان سے کہا، کیا آپ کو امر خدا پر تعجب هے ؟ اے اہل بیت (علیھم السلام) آپ پر خدا کی رحمتیں اور اس کی برکتیں هیں۔ بنابر ایں خداوند عالم نے ابراهیم علیہ السلام کو بوڑھاپے میں اولاد عطا کی جب تک جوان تھے صاحب اولاد نهیں تھے آپ اس وقت صاحب اولاد هوئے جب منصب پیغمبری پر فائز هوچکے تھے۔ کیونکہ جناب ابراهیم علیہ السلام کے بارے میں  قرآن کے اندر بہت سی آیتیں هیں جن سے ظاہر هوتا هے کہ جناب ابراهیم علیہ السلام کے پیغمبر هونے کے سالہا سال کے بعد زندگی کے آخری ایام یعنی ستّر اسّی سال کے سِن میں خداوند عالم انهیں نعمتِ اولاد سے نوازتا هے اور آپ اس کے دس بیس سال بعد تک زندہ بھی رہتے هیں یہاں تک کہ جناب اسماعیل علیہ السلام و جناب اسحٰق علیہ السلام بڑے هوجاتے هیں اور جناب اسماعیل علیہ السلام تو ان کی حیات میں اتنے بڑے هوجاتے هیں کہ خانۂ کعبہ کی تعمیر سے اپنے پدر بزرگوار کا ہاتھ بٹاتے هیں آیت : "وَاِذِابۡتَلیٰ اِبۡرَاهِیۡمَ رَبُّہ بِکَلِمَاتٍ فَاَتَمَّھُنَّ قَالَ اِنِّیۡ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَاماً قَالَ وَمِنۡ ذُرِّیَّتِیۡ قَال لایَنَالُ عَھۡدِی الظَّالِمِیۡنَ " [6] بتاتی هے کہ خدا وند عالم نے جناب ابراهیم علیہ السلام کو آزمائش میں مبتلاکیا۔ آپ نے ان آزمائشوں کو پورا کر دکھایا اور ان میں کھرے اترے اس کے بعد خداوند عالم نے فرمایا ؛ میں تمهیں لوگوں کا امام قرار دیتا هوں جناب ابراهیم علیہ السلام نے دریافت کیا، کیا میری ذریّت سے بھی یہ منصب متعلق رهے گا ؟ جواب ملا، میرا عہد (ان میں سے ) ظالموں تک نهیں پهونچے گا۔ یہ آیتیں کس زمانہ سے تعلق رکھتی هیں؟ کیا جناب ابراهیم علیہ السلام کے اوائل زندگی سے ؟ مسلّم طور پر نبوت سے پہلے کی نهیں هیں۔ کیونکہ ان آیتوں میں وحی کی بات کهی گئی هے۔ بہر حال دوران نبوت سے تعلق رکھتی هیں۔ کیا یہ زمانہ نبوت کا ابتدائی زمانہ هے ؟ نهیں، بلکہ نبوت کا آخری زمانہ هے۔ اس کی دو دلیلیں هیں۔ ایک یہ کہ آیت کہتی هے کہ یہ منصب آزمائشوں کے بعد ملا اور جناب ابراهیم  کی تمام آزمائشیں آپ کی نبوت کے پورے دور میں پھیلی هوئی هیں اور ان میں سے اھم ترین آزمائش آپ کے اواخر عمر سے متعلق رہی ہے اور دوسرے یہ کہ اسی آیت میں آپ کی ذرّیت اور اولاد کا تذکرہ بھی هے۔ جیسا کہ ابراهیم علیہ السلام نے خود فرمایا "وَمِنۡ ذُرِّیَّتِیۡ" جس سے معلوم هوتا هے کہ آپ صاحب اولاد تھے۔

یہ آیت جناب ابراهیم علیہ السلام سے جو نبی بھی تھے اور رسول بھی، اب آخر عمر میں یہ کہتی هے کہ ہم تمهیں ایک نیا عہدہ اور ایک دوسرا منصب دینا چاہتے هیں۔ "اِنِّی جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَاماً " میں تمهیں لوگوں کا امام بنانا چاہتا هوں۔" معلوم هوا کہ ابراهیم علیہ السلام پیغمبر تھے۔ رسول تھے۔ ان مراحل کو طے کر چکے تھے، لیکن ابھی ایک مرحلہ اور تھا جس تک ابھی رسائی حاصل نهیں کرپائے تھے اور نهیں پہنچے جب تک تمام آزمائشوں سے کامیابی کے ساتھ گزر نهیں گئے۔ کیا یہ بات یہ ظاہر نهیں کرتی کہ قرآن کی منطق میں منصب امامت ایک دوسری هی حقیقت کا نام هے؟ اب دیکھنا یہ هے کہ امامت کے معنی کیا هے ؟



[1] سورۂ بقرہ آیت ۱۲۴

[2] سورۂ ابراہیم آیت ۳۷

[3] سورۂ صافات آیت ۱۰۳۔۱۰۲

[4] سورۂ صٰفّٰت آیت ۱۰۴

[5] سورۂ ہود آیت نمبر ۷۲۔ ۷۳

[6] سورۂ بقرہ آیت ۱۲۴

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

خود شناسی(پہلی قسط)
قرآن کی حفاظت
جھاد قرآن و حدیث کی روشنی میں
سیاست علوی
قرآن مجید و ازدواج
عید سعید فطر
شب قدر ایک تقدیر ساز رات
آخرت میں ثواب اور عذاب
انیس رمضان / اللہ کے گھر میں پہلی دہشت گردی
حضرت امام علی علیہ السلام کے حالات کا مختصر جائزہ

 
user comment