اردو
Friday 19th of April 2024
0
نفر 0

امامت قرآن کی روشنی میں

امامت قرآن  کی روشنی میں

 

اس سے قبل ہم نے آیت "الیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ وَاَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ وَرَضِیۡتُ لَکُمُ الاِسۡلَامُ دیناً [1] کے سلسلہ میں بحث کی تھی اور یہ بھی عرض کیا تھا کہ خود آیت کے اندر موجود قرائن اور ان کے علاوہ اس سے متعلق دوسرے آثار و شواہد، یعنی آیت کی شانِ نزول کے تحت شیعہ و سنی ذرائع سے وارد هونے والی روایات بھی یہ ظاہر کرتی هیں کہ مذکورہ آیت واقعہ غدیر خم سے تعلق رکھتی هے۔

چونکہ اس موضوع کے ذیل میں قرآن کی آیتیں ہماری بحث کا محور هیں یعنی وہ آیتیں جن سے شیعہ اس باب میں استدلال کرتے هیں لہٰذا ہم مزید دو تین آیتیں جنهیں علماء شیعہ استدلال میں پیش کرتے هیں یہاں ذکر کررهے هیں تاکہ اچھی طرح واضح هو جائے کہ استدلال کا طریقہ کیا هے؟

ان آیات میں سے ایک اسی "سورۂ مائدہ کی آیت هے جو مذکورہ بالا آیت سے تقریباً ساٹھ آیتوں کے بعد ذکر هوئی هے اور وہ یہ هے: یا ایھاالرسول بلغ ما انزل الیک من ربک وان لم تفعل فما بلغت رسالتہ واللہ یعصمک من الناس (مائدہ / ۶۷) اے پیغمبر جو کچھ آپ کے پروردگار کی جانب سے آپ پر نازل هوا هے اسے لوگوں تک پہنچا دیجئے اور اگر آپ نے یہ نہ کیا تو رسالت کی تبلیغ نهیں کی اور اپنا فریضہ ادا نهیں کیا۔ خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا۔

گفتگو آگے بڑھانے سے پہلے مقدمہ کے طور پر کچھ باتیں ذکر کرنا ضروری هیں تا کہ اس آیت کےمفاد کی وضاحت هوجائے نیز یہ مقدمہ گزشتہ آیت کے تحت بیان کئے گئے مطالب کے لئے بھی معاون و مددگار ثابت هوگا۔

اہل بیت علیہ السلام سے متعلق آیات کا خاص انداز

یہ بات واقعاً ایک اسرار کی حیثیت رکھتی هے کہ مجموعی طور پر قرآن میں اہل بیت سے متعلق آیتیں اور خصوصاً وہ آیتیں جو کم ازکم ہم شیعہ کے نقطۂ نظر سے امیرالمومنین (علیه السلام)کےبارےمیں نازل هوئی هیں، ایک خاص وضع و کیفیت کی حامل هیں۔ اور وہ یہ کہ خود اس آیت کے اندر مطلب کی حکایت کرنے والی دلیلیں اور قرائن تو پائے جاتے هیں لیکن ساتھ هی یہ کوشش بھی نظر آتی هے کہ اس بات کو دوسرے مطالب کے درمیان یا دوسری باتوں کے ضمن میں بیان کرتے هوئے گزر جایا جائے۔ اس پہلو کو جناب محمد تقی شریعتی نے اپنی کتاب " ولایت و خلافت" کی ابتدائی بحثوں میں نسبتاً اچھے انداز سے بیان کیا هے اگر چہ دوسروں نے بھی اس نکتہ کو بیان کیا هے لیکن فارسی میں شاید پہلی بار انهوں نے هی اس کا ذکر فرمایا هے۔ آخر اس کا راز کیا هے ؟ اس سوال کے جواب میں ان لوگوں کا جواب بھی هوجائے گا جو یہ کہتے هیں کہ اگر خدا چاہتا تھا کہ علی (علیہ السلام) پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جانشین هوں، تو پھر قرآن میں صاف صاف ان کے نام کا ذکر کیوں نهیں هے۔

آیت تطهیر

مثال کے طور پر آیت تطهیر کو لے لیں " اِنَّمَا یُرِیۡدُ اللہُ لِیُذۡھِبَ عَنۡکُمُ الرِجۡسَ اَھۡلَ الۡبَیۡتِ وَ یُطَھِّرَکُمۡ تَطۡھِیۡراً " ( احزاب /۳۳) اس آیت کے بارے میں دریافت کیا جائے تو ہم کهیں گے کہ اس کا مفهوم و مطلب بالکل واضح هے۔ اللہ نے یہ ارادہ کیا هے اور وہ یہ چاہتا هے کہ (اہل بیت علیھم السلام) تم سے کثافتوں کو دور کرے، تمهیں پاک و پاکیزہ رکھے، ویطھرکم تطھیراً اور تمهیں مخصوص نوعیت اور خاص انداز میں تطهیر و پاکیزہ رکھے یا کرے۔  ظاہر هے کہ جس تطهیر کا ذکر خدا کررہا هے وہ عرفی یا طبی تطهیر نهیں هے کہ یہ کہا جائے کہ خدا تم سے بیماریوں کو دور کرنا چاہتا هے یا (معاذاللہ) کے تمہارے بدن کے امراض کے جراثیم کو زائل کررہا هے۔ ہم یہ نهیں کہنا چاہتے کہ یہ تطهیر کا مصداق نهیں هے، لیکن مسلّم طور پر جس کو خدا اس آیت میں بیان فرمارہا هے اس سے مراد پہلی منزل میں وہ تمام چیزیں هیں جنهیں خود قرآن جس کا نام دیتا هے۔ قرآن کے بیان کردہ رجس و رجز وغیرہ یعنی وہ تمام چیزیں جن سے قرآن منع کرتا اور روکتا هے اور جنهیں گناہ شمار کیا جاتا هے چاهے وہ اعتقادی گناہ هو، اخلاقی گناہ هو یا عملی گناہ، یہ سب رجس و کثافت هیں اسی بنیاد پر کہا جاتا هے کہ اس آیت سے مراد عصمت اہل بیت علیھم السلام هے یعنی ان کا ہر طرح کی کثافت اور آلودگیوں سے پاک و پاکیزہ هونا۔

فرض کیجئے کہ نہ ہم شیعہ هیں نہ سنی، بلکہ ایک عیسائی مستشرق هیں، عیسائی دنیا سے نکل کر آئے هیں اور یہ دیکھنا چاہتے هیں کہ مسلمانوں کی کتاب (قرآن)کیا کہنا چاہتی هے ہماری نظر قرآن کے اس جملہ پر پڑتی هے پھر ہم اس سے متعلق مسلمانوں کی تاریخ اور سنن و احادیث کا جائزہ لیتے هیں، ہم دیکھتے هیں کہ نہ صرف وہ فرقہ جسے شیعہ کہتے هیں اور جو اہل بیت (علیہ السلام) کا طرفدار هے بلکہ وہ فرقے بھی جو اہل بیت (علیہ السلام) کے کوئی خصوصی طرفدار نهیں هیں اپنی معتبر ترین کتابوں میں جب اس آیت کی شان نزول بیان کرتے هیں تو اسے اہل بیت علیھم السلام پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی فضیلت قرار دیتے هیں، اور کہتے هیں کہ جس واقعہ کے تحت یہ آیت نازل هوئی اس میں حضرت علی (علیه السلام)، حضرت فاطمہ(علیها السلام)،  حضرت حسن (علیه السلام)، حضرت حسینِ (علیه السلام)، اور خود حضرت رسول اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) موجود تھے اور اہل سنت کی احادیث میں هے کہ جب یہ آیت نازل هوئی تو زوجۂ رسول اکرم(ص) ام سلمہ [2] آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آئیں اور عرض کی یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) " اہل بیت (علیہ السلام)"  میں میرا بھی شمار هے یا نهیں؟ آپ نے فرمایا تم خیر پر هو لیکن ان میں شامل نهیں هو۔ عرض کرچکا هوں کہ اہل سنت کی روایات میں اس واقعہ کے حوالے ایک دو نهیں بلکہ بہت زیادہ هیں۔

یهی آیت ہمیں اپنے مفهوم سے مختلف دوسری آیات کے درمیان نظر آتی هے۔ اس سے قبل و بعد کی آیتیں ازواجِ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے متعلق هیں۔ اس سے پہلے کی آیت یہ هے " یَا نِسَاءَ النَّبِیّ لَستُنَّ کَاَحَدٍ مِنَ النِّسَاءِ"[3] اے ازواج پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)!تم دوسری عورتوں جیسی نهیں هو تم اور دوسری عورتوں میں فرق هے، ( یقیناً قرآن یہ نهیں کہنا چاہتا کہ تم دوسروں پر امتیاز رکھتی هو )۔ تمہارا گناہ دگنا اور دُہرا هے کیونکہ اگر تم گناہ کرو گی تو ایک گناہ تو یہ هے کہ تم نے وہ عمل بد انجام دیا اور دوسرے یہ کہ اپنے شوہر کی رسوائی کی مرتکب هوئیں۔ اس طرح دو گناہ تم سے سر زد هوئے۔ یوں هی تمہارے نیک اعمال بھی دوہرا اجر رکھتے هیں کیو نکہ تمہارا ہر عمل خیر دو عمل کے برابر هے۔ بلکل یوں هی جیسے کہا جاتا هے کہ سادات کرام کے کار خیر کا ثواب اور بُرے عمل کا گناہ دُہرا هے۔ اس کا یہ مطلب نهیں هے کہ دوسروں کے مقابلہ میں ان کا ایک گناہ سنگین هوجاتا هے اور فرق رکھتا هے۔ بلکہ ان کا ایک گناہ دو گناہ هوجاتا هے۔ مثال کے طور پر ایک سید (معاذاللہ) شراب پیئے۔ تو وہ شراب پینے کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے عمل کا بھی مرتکب هوا هے، اور وہ یہ کہ چونکہ وہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آل پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منسوب هے لہٰذا اپنی شراب نوشی کے ذریعہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہتک و رسوائی کا مرتکب بھی هوا هے۔ اگر کوئی شخص یہ دیکھے کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اولاد اس قدر کھلم کھلا ان کے حکم کے خلاف عمل کر رهی هے تو اس کی روح پر اس کا بڑا گہرا اثر هوگا۔

ان آیات میں تمام ضمیریں مؤنث کی استعمال هوئی هیں " لَسۡتُنَّ کَاَحِدٍ مِنۡ النِّسَاءِ اِن اتَّقَیۡتُنَّ " ٓصاف ظاہر هے کہ اس سے مراد ازواج پیغمبر اکرم (ص ) هیں۔ دو تین فرقوں کے بعد یک بیک ضمیر مذکر هوجاتی هے اور ہم اس آیت کی تلاوت کرتے هیں، " اِنَّمَا یُرِیۡدُ اللہُ لِیُذۡھِبَ عَنۡکُم ( عَنکُنَّ نهیں هے ) الرِّجۡسَ اَھۡلَ الۡبیۡتِ وَ یُطَھِّرَکُمۡ تَطۡھِیۡراً"اس کے بعد دوبارہ مؤنث کی ضمیریں استعمال هونے لگتی هیں قرآن کا کوئی لفظ عبث اور غلط نهی هے۔ اولاً یہاں کلمہ "اہل البیت " استعمال هوا هے۔ اوراس کے پہلے ازواج رسول کا تذکرہ هے " یانِسَاءَ النبَّی " یعنی " نساء النبی " کا عنوان " سے "اہل البیت " میں تبدیل هوگیا اور دوسرے مؤنث کی ضمیر مذکر میں تبدیل هوگئی یہ سب لغو اور عبث نهیں هے۔ ضرور کوئی دوسری چیز هے۔ یعنی قرآن گذشتہ آیات سے الگ کوئی دوسری بات کہنا چاہتا هے۔ آیت تطهیر سے قبل و بعد کی آیتوں میں ازواج پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے حکم، دھمکی اور خوف و رجاء کا انداز پایا جاتا هے: وَقَرۡنَ فِی بُیُوۡتِکُنَّ وَلَا تَبَرَّجۡنَ تَبَرُّجَ الۡجَاھِلِیَّۃ " اپنے گھروں میں رهو اور زمانہ جاہلیت کے  مانند اپنے بناؤ سنگھار کو دکھاتی نہ پھرو۔ گویا ایک کے بعد ایک حکم اور تہدید و دھمکی هے۔ ساتھ هی خوف و رجاء بھی هے کہ اگر نیک اعمال بجالاؤ گی تو ایسا هوگا اوراگر بُرے اعمال کروگی تو ویسا هوگا۔

یہ آیت یعنی (آیت تطهیر) مدح سے بالاتر ایک بات هے قرآن  اس میں اہل بیت  علیھم السلام کی گناہ و معصیت  سے پاکیزگی اور طہارت کے مسئلہ کو بیان کرنا چاہتا هے۔ اس آیت کا مفهوم اس سے پہلے اور بعد کی آیتوں کے مفهوم  و مطلب سے ایک دم الگ ہے۔ یہاں اہل بیت (علیهم السلام) سے خطاب هورہا ہے اور وہاں ازدواج رسول(ص) سے۔ یہاں مزکر کی ضمیر ہے اور وہاں مؤنث کی۔ لیکن یهی آیت (تطهیر)جس کا مفهوم و مطلب  پہلے اور بعد کی آیتوں سے اس قدر مختلف هے، ان آیت کے درمیان میں قراردی گئی هے۔ اس کی مثال اس شخص کے مانند هے جو اپنی گفتگو کے دوران الگ سے ایک بات کہہ کر گفتگو کے سلسلہ کو پھر جوڑ دیتا هے۔ اور اپنی بات جاری رکھتا هے یهی وجہ هے کہ ائمہ علیہم السلام کی روایات میں بڑی تاکید سے یہ بات کهی گئی هے کہ ممکن هے قرآنی آیات کی ابتدا میں کوئی ایک مطلب بیان هوا هو۔ درمیان میں کوئی دوسرا مطلب اور آخر میں کوئی تیسری بات کهی گئی هو۔ اور قرآن کی تفسیر کے مسئلہ کو ان حضرات نے جو اتنی اہمیت دی هے اس کا سبب بھی یهی هے۔

یہ بات صرف ہماری روایات اور ائمہ کے ارشادات میں هی نهیں پائی جاتی بلکہ اہل سنت حضرات نے بھی ان تمام مطالب کو نقل کیا هے "اِنَّمَا یُرِیۡدُ اللہُ لِیُذۡھِبَ عَنۡکُمُ الرِّجۡسَ …… " اپنے پہلے اور بعد کی آیتوں سے فرق رکھتی هے۔ اس آیت کا مضمون اور اس کے مخاطب بھی الگ هیں یہ آیت ان هی لوگوں سے متعلق هے جو اس واقعہ (کساء) میں شامل هیں۔

دوسرا نمونہ

آیت "اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ " میں بھی ہمیں یهی بات نظر آتی هے۔

بلکہ یہاں مذکورہ بالا آیت تطهیر سے زیادہ عجیب انداز نظر آتا هے۔ اس سے پہلے کی آیت میں بہت هی سادے اور معمولی مسائل ذکر کئے گئے هیں"اُحِلَّتۡ لَکُم بَھِیمَۃُ الۡاَنۡعَامِ "[4] چوپایوں کا گوشت تمہارے لئے حلال هے، ان کا تزکیہ یوں کرو اور اگر مردار هو تو حرام هے۔ وہ جانور جنهیں تم دم گھونٹ کر مار ڈالتے هو (مُنۡخَنِقَۃ) حرام هیں اور وہ جانور جو ایک دوسرے کے سینگ مارنے سے مرجاتے هیں ان کا گوشت حرام هے اور……پھر یک بیک ارشاد هوتا هے "اَلۡیَوۡمَ یَئِسَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوا مِنۡ دِیۡنِکُمۡ فَلَا تَخۡشَوۡھُمۡ وَاخۡشَوۡنِ اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُم وَاَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ وَرَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسۡلَامَ دِیۡناً " اس کے بعد دوبارہ مسائل کا ذکر شروع هوجاتا هے جو پہلے بیان هورهے تھے مذکورہ آیت کے یہ جملے اپنے پہلے اور بعد کی آیتوں سے سرے سے میل نهیں کھاتے۔ یعنی یہ اس بات کی نشاندھی هے کہ یہ وہ بات هے جو دوسرے مطالب کے درمیان الگ سے سر سری طور پر بیان کردی گئی هے اور پھر اسے ذکر کر کے آگے بڑھ گئے هیں۔ اس وقت ہم جس آیت کا ذکر کرنا چاہتے هیں (آیت بَلِّغ) اس کا بھی یهی حال هے، یعنی وہ بھی ایسی آیت هے کہ اگر ہم اس سے پہلے اور بعد کی آیات کے درمیان سے نکال دے تو بھی اُن آیتوں کا ربط کسی طرح نهیں ٹوٹ سکتا۔ جیسا کہ آیت "الیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ " کو اس کی جگہ سے ہٹادیں تو اس سے پہلے اور بعد کی آیتوں میں کوئی خلل واقع نهیں هوتا یوں هی زیر بحث آیت میں دوسری آیت کے درمیان ایک ایسی آیت هے نہ اسے ما قبل کی آیتوں سے متعلق کہا جاسکتا هے اور نہ مابعد کی آیتوں کا مقدمہ، بلکہ اس میں ایک دم الگ سے بات کهی گئی هے۔ یہاں بھی خود آیت میں موجود قرائن اور شیعہ و سنی روایات اسی مطلب کی حکایت کرتی نظر آتی هیں، لیکن اس آیت کو بھی قرآن نے ایسے مطالب کے درمیان رکھا هے جو اس سے دور کا بھی واسطہ نهیں رکھتے اس میں ضرور کوئی راز هوگا، آخر اس کا راز کیا هے؟

اس مسئلہ کا راز: اس میں جو راز پوشیدہ هے، خود قرآن کی آیت کے اشارء سے بھی ظاہر هے اور ہمارے ائمہ (علیہم السلام) کی روایات میں بھی اس کی طرف اشارہ پایا جاتا هے۔ اور وہ یہ هےکہ اسلام کے تمام احکام و دستورات میں آلِ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مسئلہ یعنی امیر المومنین (علیہ السلام) کی امامت اور خاندان پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خصوصیت هی ایسا مسئلہ اور ایسا حکم تھا جس پر بدقسمتی سے سب سے کم عمل هوسکا، اور اس کی وجہ یہ تھی کہ چونکہ اہل عرب اپنی روح کی گہرائیوں میں تعصبات رکھتے تھے جس کے سبب ان میں اس مطلب کے قبول کرنے اور ا س پر عمل پیرا هونے کی آمادگی بہت هی کم نظر آتی تھی اگر چہ پیغمبر اکرم(ص) کی خدمت میں امیرالمومنین (علیه السلام) سے متعلق حکم پہنچتے تھے لیکن حضرت علیہ السلام ہمیشہ اس تردد میں رہتے تھے کہ اگر میں حکم بیان کردوں تو وہ منافقین جن کا ذکر قرآن برابر کرتا رھا هے کہنے لگیں گے کہ دیکھو ! پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کنبہ نوازی سے کام لے رهے هیں۔ جبکہ پوری زندگی پیغمبراکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ شیوہ رہا هے کسی مسئلہ میں اپنے لئے کسی خصوصیت کے قائل نہ هوئے۔ ایک تو آپ کا اخلاق ایسا تھا، دوسرے اسلام کا حکم هونے کی بناپر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس بات سے غیر معمولی طور پر گریز کرتے تھے کہ اپنے اور دوسروں کے درمیان کوئی امتیاز برتیں اور یهی پہلو پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کامیابی کا سب سے بڑا سبب تھا۔

یہ مسئلہ (یعنی اس حکم کی تبلیغ کہ علی (علیه السلام) میرے جانشین هیں) خدا کا حکم تھا، لیکن پیغمبر(ص) جانتے تھے کہ اگر اسے بیان کردیں تو ضعیف الایمان افراد کا گروہ جو ہمیشہ رہا هے، کہنے لگے گا کہ دیکھو! پیغمبر(ص) اپنے لئے عظمت و امتیاز پیدا کرنا چایتے هیں۔ آیت"اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ"میں ہم نے دیکھا کہ اس سے قبل کی آیت "اَلۡیَوۡمَ یَئِسَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ دِیۡنِکُمۡ فَلَا تَخۡشَوۡھُمۡ وَاخۡشَوۡنِ " تھیَ۔ جس میں قرآن فرماتا هے کہ اب کافروں کی امیدیں تمہارے دین سے منقطع هوچکی هیں۔ مطلب یہ هے کہ یہ لوگ اسلام کے خلاف اب تک جو جد وجہد کررهے تھے کہ اس دین پر کامیاب هوجائیں گے ان کی یہ امیدیں ٹوٹ چکی هیں اور وہ مایوس هوچکے هیں۔ وہ یہ سمجھ گئے هیں کہ اسبان کے بگاڑے کچھ بگڑ نهیں سکتا۔ "فَلَا تَخۡشَوھُمۡ " لہٰذا اب کافروں کی جانب سے کسی طرح کا خوف وخطر نہ رکھو  "وَاخۡشَوۡنِ " لیکن مجھ سے ڈرتے رهو۔ میں عرض کرچکا هوں کہ اس کامطلب هے اس بات سے ڈرتے رهو کہ اگر تم میں خود اندرونی طور پر خرابیاں پیدا هوئیں تو میں اپنی سنت اور قانون کے مطابق یعنی جب بھی کوئی قوم (فساد اور بُرائی میں پڑ کر) اپنی راہ بدلتی هے میں بھی ان سے اپنی نعمت سلب کرلیتا هوں۔ (نعمت اسلام کو تم سے سلب کرلوں گا) یہاں "وَاخۡشَوۡنِ" کنایہ هے۔ مجھ سے ڈرو کا مطلب یہ هے کہ اپنے آپ سے ڈرو یعنی اب خطرہ اسلامی معاشرہ کے اندر سے هے باہر سے کوئی خطرہ نهیں رہ گیا هے۔ دوسری طرف ہم یہ بھی جانتے هیں کہ یہ آیت سورۂ مائدہ کی هے اور سورۂ مائدہ پیغمبر اکرم (ص) پر نازل هونے والا آخری سورہ هے۔ یعنی یہ آیت پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رحلت کے دو تین ماہ پہلے نازل هونے والی آیتوں میں سے هے جب اسلام طاقت واقتدار کے اعتبار سے وسعت پاچکا تھا۔

جو آیت ہماری بحث کا محور هے اورجسے میں پہلے بھی عرض کرچکا هوں، اس میں بھی یهی بات نظر آتی هے کہ خطرہ داخلی طور پر هے خارجی طور پر کسی طرح کا خطرہ باقی نهیں رہا۔ ارشاد هے :"یَااَیّھَا الرَّسُولُ بَلِّغۡ مَااُنۡزِِلَ اِلَیۡکَ مِنۡ رَبِّکۡ وَاِنۡ لَمۡ تَفۡعَلۡ فَمَا بَلَّغۡتَ رِسَالَتَہ وَاللہُ یَعۡصِمُکَ مِنَ النَّاسِ" ہمیں قرآن میں اس آیت کے علاوہ کوئی اور آیت نظر نهیں آتی جو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو (کسی عمل کی انجام دهی کے لئے) آمادہ کرے اور شوق دلائے۔ اس کی مثال ایسی ھی ھے جیسے آپ کسی کو کسی کام کے لے تشویق کیجیئے اور وہ اس کے لیئے ایک قدم آگے بڈھے پھر ایک قدم پیچھے ھٹ جائے جیسے وہ خطرے یا تزبزب کا شکار ھے۔ یہ آیت بھی پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تبلیغ کی دعوت دیتی هے اوراس تبلیغ کے سلسلہ میں ایک طرف دھمکی دیتی هے اور دوسری طرف شوق پیدا کراتی اور تسلّی دیتی هے۔ دھمکی یہ هے کہ اگر اس امر کی تبلیغ تم نے نهیں کی تو تمہاری رسالت کی تمام خدمت اکارت اور بے کار هے اور تسلّی یوں دی جاتی هے کہ ڈرو نهیں! خدا تم کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا۔ وَاللہُ یَعۡصِمُکَ مِنَ النَّاسِ" آیت "اَلیَوۡمَ یَئِسَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ دِیۡنِکُمۡ فَلَا تَخۡشَوۡھُمۡ" میں فرمایا آپ کافروں سے خوف زدہ نہ هو۔ در حقیقت پہلی منزل میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کافروں سے نهین ڈرنا چاہئے۔ لیکن آیت "یَااَیُّھَا الرَّسُول…… سے یہ ظاہر هوتا هے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیمناک اور فکر مند تھے۔ پس ظاہر هے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ تردد و فکر مندی مسلمانوں کے اندر پائے جانے والے افراد سے هے۔ مجھے فی الحال اس سے سروکار نهیں هے کہ مسلمانوں میں وہ لوگ (جو اس تبلیغ یعنی علی (علیہ السلام) کی جانشینی قبول کرنے پر تیار نهیں تھے) باطنی طور پر کافر تھے یا نهیں تھے۔ بہر حال یہ مسئلہ کچھ ایسا تھا کہ وہ لوگ اس کے لئے آمادہ اور اسے قبول کرنے پر تیار نهیں تھے۔

تاریخی مثالیں

اتفاق سے تاریخی واقعات اور اسلامی معاشرہ کے مطالعہ سے بھی یهی بات ظاہر هوتی هے چنانچہ عمر نے کہا کہ: ھم نے جو علی (علیہ السلام) کو خلافت کے لئے منتخب نهیں کیا وہ "حِیۡطَۃً عَلیٰ الاِسلَام " تھا، یعنی ہم نے اسلام کے حق میں احتیاط سے کام لیا کیونکہ لوگ ان کی اطاعت نهیں کرتے اور انهیں (خلیفہ) نهیں مانتے!! یا ایک دوسری جگہ ابن عباس سے گفتگو کے دوران ان سے کہا: قریش کی نگاہ میں یہ عمل صحیح نهیں تھا کہ امامت بھی اسی خاندان میں رهے جس خاندان میں نبوت تھی۔ مطلب یہ تھا کہ نبوت جب خاندان بنی ہاشم میں ظاہر هوئی تو فطری طور پر یہ اس خاندان کے لئے امتیاز بن گئی لہٰذا قریش نے سوچا کہ اگر خلافت بھی اسی خاندان میں هوگی تو سارے امتیازات بنی ہاشم کو حاصل هوجائیں گے۔ یهی وجہ تھی کہ قریش کو یہ مسئلہ (خلافت امیرالمومنین) ناگوار تھا اور وہ اسے درست نهیں سمجھتے تھے۔ ابن عباس نے بھی ان کو بڑے هی محکم جواب دیئے اور اس سلسلہ میں قرآن کی دو آیتیں پیش کیں جوان افکار و خیالات کا مدلّل جواب هیں۔

بہر حال اسلامی معاشرہ میں ایک ایسی وضع و کیفیت پائی جاتی تھی جسے مختلف عبارتوں اور مختلف زبانوں میں بیان کیا گیا هے۔ قرآن اُسے ایک صورت اور ایک انداز سے بیان کرتا هے اور عمر اسی کو دوسری صورت سے بیان کرتے هیں یا مثال کے طور پر لوگ یہ کہتے تھے کہ چونکہ علی علیہ السلام نے اسلامی جنگوں میں عرب کے بہت سے افراد اور سرداروں کو قتل کیا تھا، اور اہل عرب فطرتاً کینہ جو هوتے هیں لہٰذٓ مسلمان هونے کے بعد بھی ان کے دلوں میں علی سے متعلق پدر کشی اور برادر کشی کا کینہ موجود تھا (لہٰذا علی علیہ السلام خلافت کے لئے مناسب نهیں هیں) بعض اہل سنت بھی اسی پہلو کو بطور عذر پیش کرنے کی کوشش کرتے هیں۔ چنانچہ وہ کہتے هیں کہ یہ سچ هے کہ اس منصب کے لئے علی (علیه السلام) کی افضلیت سب پر نمایاں اور ظاہر تھی لیکن ساتھ هی یہ پہلو بھی تھا کہ ان کے دشمن بہت تھے۔

بنابر ایں اس حکم سے سرتابی کے لئے ایک طرح کے تکدر وتردد کی فضا عہد پیغمبر میں هی موجود تھی اور شاید قرآن کا ان آیات کو قرائن و دلائل کے ساتھ ذکر کرنے کا راز یہ هے کہ ہر صاف دل اور بے غرض انسان حقیقی مطلب کو سمجھ جائے لیکن ساتھ هی قرآن یہ بھی نهیں چاہتا کہ اس مطلب کو اس طرح بیان کرے کہ اس سے انکار و رو گردانی کرنے والوں کا انحراف قرآن اور اسلام سے انحراف و انکار کی شکل میں ظاہر هو۔ یعنی قرآن یہ چاہتا هے کہ جو لوگ بہر حال اس مطلب سے سرتابی کرتے هیں ان کا یہ انحراف قرآن سے کھلّم کلھلّا انحراف و انکار کی شکل میں ظاہر نہ هو بلکہ کم از کم ایک ہلکا سا پردہ پڑا رهے۔ یهی وجہ هے جو ہم دیکھتے هیں کہ آیت تطهیر کو ان آیات کے درمیان میں قرار دیا گیا هے لیکن ہر سمجھدار، عقلمند اور مدبّر انسان بخوبی سمجھ جاتا هے کہ یہ ان سے الگ ایک دوسری هی بات هے۔ اسی طرح قرآن نے آیت "الیَومَ اکملت" اور آیت "یَااَیَّھَا الرَّسُوۡلُ بَلِّغۡ " کو بھی اسی انداز میں دوسری آیتوں کے درمیان ذکر کیا۔

آیت اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللہُ

اس سلسلہ میں بعض ایسی آیتیں بھی هیں جو انسان کو سوچنے اور غور کرنے پر مجبور کردیتی هیں کہ یہاں ضرور کوئی خاص بات ذکر کی گئی هے اور بعد میں متواتر احادیث و روایت سے بات ثابت هوجاتی هے۔ مثال کے طور پر آیت "اِنَّمَا وَلِیُّکمُ اللہُ وَرَسُولُہ وَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوا الَّذِیۡنَ یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلوٰ ۃَ وَیُؤتُونَ الذَّکوٰۃَ وَھُمۡ رَاکِعُوۡنَ"  (مائدہ/ ۵۵) عجیب تعبیر هے۔ ملاحظہ فرمائیں۔ " تمہارا ولی خدا هے اور ان کا رسول اور وہ صاحبانِ ایمان هیں جو نماز قائم کرتے هیں اور حالتِ رکوع میں زکوٰۃ ادا کرتے هیں۔ حالت رکوع میں زکوٰۃ دینا کوئی معمولی عمل نهیں هے جسے ایک اصل کلی کے طور پر ذکر کیا جائے بلکہ یہ مطلب و مفهوم کسی خاص واقعہ کی طرف اشارہ کررہا هے۔ یہاں اس کی تصریح و وضاحت بھی نهیں کی گئی هے کہ اس سے سرتابی دوست و دشمن کے نزدیک براہِ راست قرآن سے روگردانی شمار کی جائے۔ لیکن ساتھ هی کمالِ فصاحت کے ساتھ اسے اس انداز سے بیان بھی کردیا گیا هے کہ ہر صاف دل اور منصف مزاج انسان سمجھ جائے کہ یہاں کوئی خاص چیز بیان کی گئی هے اور کسی اہم قضیہ کی طرف اشارہ کیا جارہا هے۔

الَّذِیۡنَ یُؤتُوۡنَ الزَّکوٰ ۃَ وَھُمۡ رَاکِعُونَ۔ وہ لوگ رکوع کی حالت میں زکوٰۃ دیتے هیں "یہ کوئی عام سی بات نهیں هے بلکہ ایک غیر معمولی واقعہ هے جو وجود میں آگیا۔  آخر یہ کون سا واقعہ تھا ؟ ہم دیکھتے هیں کہ بلا استثناء تمام شیعہ و سنی روایات کہتی هیں کہ یہ آیت حضرت علی بن ابی طالب (علیه السلام) کے بارے میں نازل هوئی هے۔



[1] سورہ مائدہ آیت نمبر ۳

[2] یہ معظمہ شیعوں کے نزدیک بہت محترم ہیں۔ اور خدیجہ کے بعد پیغمبر اکرم (ص) کی سب سے زیادہ جلیل المرتبت زوجہ ہیں۔ اہل سنت کے یہاں بھی بہت محترم ہیں اور ان کی نگاہ میں خدیجہ و عائشہ کے بعد امّ سلمہ ہی معظم و محترم خاتون ہیں۔

[3] سورہ احزاب آیت ۳۲

[4] سورہ مائدہ، آیت نمبر ۱

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

خود شناسی(پہلی قسط)
قرآن کی حفاظت
جھاد قرآن و حدیث کی روشنی میں
سیاست علوی
قرآن مجید و ازدواج
عید سعید فطر
شب قدر ایک تقدیر ساز رات
آخرت میں ثواب اور عذاب
انیس رمضان / اللہ کے گھر میں پہلی دہشت گردی
حضرت امام علی علیہ السلام کے حالات کا مختصر جائزہ

 
user comment