اردو
Friday 29th of March 2024
0
نفر 0

منکرین خدا سے مناظرہ

۳۔ منکرین خدا سے مناظرہ

مادّیوں اور منکرین خدا کی باری آئی تو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کی طرف رخ کرتے ہوئے فرمایا: تم لوگ اس بات کا عقیدہ رکھتے ہو کہ اس موجودات عالم کا کوئی آغاز نہیں ہے بلکہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔

منکرین خدا:  جی ہاں، یہی ہمارا عقیدہ ہے، کیونکہ ہم نے اس دنیا کے آغاز اور حدوث کو نہیں دیکھا، اور اسی طرح اس کے لئے فنا اور انتہا کا مشاہدہ نہیں کیا، لہٰذا ہمارا یہ فیصلہ ہے کہ یہ دنیا ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم :  میں بھی آپ لوگوں سے سوال کرتا ہوں کہ کیا تم نے موجودات کے قدیم، ہمیشگی اور ابدی ہونے کو دیکھا ہے؟

اگر تم کہتے ہو کہ ہم نے دیکھا ہے تو تمہیں اسی عقل و فکر اور بدنی طاقت کے ساتھ ہمیشہ سے ابد تک رہنا چاہئے تاکہ تمام موجوات کی ازلیت اور ابدیت کو دیکھ سکو، جبکہ ایسا دعویٰ عقل اور عینی واقعیت کے برخلاف ہے ، اور دنیا کے سبھی عقلمند حضرات اس بات میں تمہیں جھٹلائیں گے۔

منکرین خدا:  ہم نے ایسا کوئی دعویٰ نہیں کیا کہ ہم نے موجودات کے قدیم ہونے کو دیکھا ہے۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم :  تم کو ایک طرفہ فیصلہ نہیں کرنا چاہئے، کیونکہ تم لوگوں نے خود اقرار کیا ہے کہ نہ ہم نے موجودات کو دیکھا ہے اور نہ ان کے قدیم ہونے کو، اور نہ ہی ان کی نابودی کو دیکھا ہے اور نہ ان کی بقاء کو، پس تم کس طرح ایک طرفہ فیصلہ کرسکتے ہو،اور تم یہ کیسے کہہ سکتے ہو کہ چونکہ ہم نے موجودات کے حدوث اور فنا کو نہیں دیکھا لہٰذا موجودات قدیمی اور ابدی ہیں؟

(اس کے بعد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے ایک سوال کیا جس میں ان کے عقیدہ کو مردود کرتے ہوئے ثابت کیا کہ تمام موجودات حادث ہیں) چنانچہ آنحضرت   صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

کیا تم نے دن اور رات کو دیکھا ہے جو ایک دوسرے کے بعد آتے ہیں اور ہمیشہ آمد و رفت کرتے ہیں۔

منکرین خدا:  جی ہاں۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم :  کیا تم لوگ دن و رات کو اس طرح دیکھتے ہو کہ ہمیشہ سے تھے اور ہمیشہ رہےں گے۔

منکرین خدا: جی ہاں۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم :   کیا تمہاری نظر میں یہ ممکن ہے کہ یہ دن رات ایک جگہ جمع ہوجائیں اور ان کی ترتیب ختم ہوجائے؟

منکرین خدا:   نہیں۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم :  پس اس صورت میں ایک دوسرے سے جدا ہیں، جب ایک کی مدت پوری ہوجاتی ہے تب دوسرے کی باری آتی ہے۔

منکرین خدا:  جی ہاں، اسی طرح ہے۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم :  تم لوگوں نے اپنے اس اقرار میں شب و روز میں مقدم ہونے والے کے حدوث کا اقرار کرلیا ہے بغیر اس کے کہ تم لوگوں نے اس کا مشاہدہ کیا ہو، لہٰذا تمہیں خدا کا بھی منکر نہیں ہونا چاہئے[2]

اس کے بعد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے فرمایا:

”کیا تمہاری نظر میں دن رات کا کوئی آغاز ہے یاان کا کوئی آغاز نہیں ہے اور ازلی ہے؟ اگر تم یہ کہتے ہو کہ آغاز ہے تو ہمارا مقصد ”حدوث“ ثابت ہوجائے گا اور اگر تم لوگ یہ کہتے ہو کہ اس کا کوئی آغاز نہیں ہے تو تمہاری اس بات کا لازمہ یہ ہے کہ جس کا انجام ہو اس کا کوئی آغاز نہ ہو۔

(جب دن رات انجام کے لحاظ سے محدود ہیں تو یہاں پر عقل کہتی ہے کہ آغاز کے لحاظ سے بھی محدود ہے، شب و روز کے محدود ہونے کی دلیل یہ ہے کہ ایک دوسرے سے جدا ہیں اور یکے بعد دیگرے گزرتے رہتے ہیں اور پھر ایک کے بعد دوسرے کی باری آتی ہے)

اس کے بعد فرمایا:

 تم لوگ کہتے ہو کہ یہ عالم قدیم ہے، کیا تم نے اپنے اس عقیدہ کو خوب سمجھ بھی لیا ہے یا نہیں؟

منکرین خدا:  جی ہاں، ہم جانتے ہیں کہ کیا کہہ رہے ہیں۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم :  کیا تم لوگ دیکھتے ہو کہ اس دنیا کی تمام موجودات ایک دوسرے سے تعلق اور پیوند رکھتے ہیں اور اپنی بقا ء میں ایک دوسرے کے محتاج ہیں، جیسا کہ ہم ایک عمارت میں دیکھتے ہیں کہ اس کے اجزاء (اینٹ، پتھر، سیمنٹ وغیرہ) ایک دوسرے سے پیوند رکھتے ہیں اور اپنی بقاء میں ایک دوسرے کے محتاج ہیں۔

جب اس دنیا کے تمام اجزاء اسی طرح ہیں تو پھر کس طرح ان کو قدیم اور ثابت [3]تصور کرسکتے ہو، اگر حقیقت میں یہ تمام اجزاء ایک دوسرے کے ساتھ پیوند رکھتے ہوں اور ضرورت رکھتے ہوں، قدیم ہیں اگر حادث ہوتے تو کیسے ہوتے؟

منکرین خدا لاجواب ہوگئے، اور حدوث کے معنی کو بیان نہیں کرسکے، کیونکہ جو کچھ بھی حدوث کے معنی میں کہہ سکتے تھے، اورجن چیزوں کو قدیم مانتے تھے ان پر یہ معنی صادق آتے تھے، لہٰذا بہت زیادہ حیران اور پریشان ہوگئے ، اور انھوں نے کہا: ہمیں غور و فکر کرنے کا موقع دیں۔[4]

۴۔دوگانہ پرستوں سے مناظرہ

ان کے بعد دوگانہ پرستوں کی باری آئی جن کا عقیدہ یہ تھا کہ دنیا کے دو مبداء اور دو مدبر بنام ”نور“ اور ”ظلمت“ ہیں، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے فرمایا: تم کس بنیاد پر یہ عقیدہ رکھتے ہو؟

دوگانہ پرستوں نے جواب دیا:  ہم دیکھتے ہیں کہ یہ دنیا دو چیزوں سے تشکیل پائی ہے،اس دنیا میں یا خیر و نیکی ہے، یا شرّ اور برائی، جبکہ یہ بات معلوم ہے کہ یہ دونوں چیزیں ایک دوسرے کی ضد ہیں، اسی وجہ سے ہمارا عقیدہ ہے کہ ان میں سے ہر ایک کا خالق بھی الگ الگ ہے، کیونکہ ایک خالق دو متضاد چیزیں خلق نہیں کرتا، مثال کے طور پر: برف سے گرمی پیدا ہونا محال ہے، جیسا کہ آگ سے سردی پیدا ہونا بھی محال ہے، لہٰذا یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ اس دنیا میں دو قدیم خالق ہیں ایک نور کا خالق (جو نیکیوں کا خالق ہے) اور دوسرا ظلمت کا خالق (جو برائیوں کا خالق ہے)۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم :  کیا تم لوگ اس بات کی تصدیق کرتے ہو کہ اس دنیا میں مختلف رنگ موجود ہیں جیسے کالا، سفید، سرخ، زرد، سبز اور مائل بہ سیاہی جبکہ یہ رنگ ایک دوسرے کی ضد ہیں کیونکہ ان میں دو رنگ ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتے، جیسا کہ گرمی اور سردی ایک دوسرے کی ضد ہیں اور ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتے۔

دوگانہ پرستوں نے جواب دیا: جی ہاں ہم تصدیق کرتے ہیں۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم :  تو پھر تم لوگ ہر رنگ کے عدد کے مطابق اتنے ہی خدا کے معتقد  کیوںنہیں ہو؟ کیا تمہارے عقیدہ کے مطابق ہر ضد کا ایک مستقل خالق نہیں ہے؟ اس پر تم ہر ضد کی تعداد کے مطابق خالق کا کیوں عقیدہ نہیں رکھتے۔؟!

دوگانہ پرست اس دندان شکن سوال کے جواب دینے سے حیران و پریشان ہوگئے، اور غور و فکر میں غرق ہوگئے۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی باتوں کو آگے بڑھاتے ہوئے فرمایا: تمہارے عقیدہ کے مطابق نور اور ظلمت دونوں کس طرح ایک دوسرے کے ساتھ مل کر اس دنیا کو چلا رہے ہیں، جبکہ نور کی فطرت میں ترقی ہے اور ظلمت کی فطرت میں تنزلی ہوتی ہے، کیا دو شخص جن میں سے ایک مشرق کی طرف جارہا ہو اور دوسرا مغرب کی طرف جارہا ہو ، کیا یہ دونوں اسی طرح چلتے چلتے ایک جگہ جمع ہوسکتے ہیں؟!

دوگانہ پرستوں نے جواب دیا:  نہیں ، ایسا ممکن نہیں ہے۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم : اس بنا پر کس طرح نور اور ظلمت جو ایک دوسرے کے مخالف اور متضاد ہیں آپس میں متحد ہوکر اس دنیا کی تدبیر کا کام انجام دے رہے ہیں؟ آیا اس طرح کی چیز ممکن ہے کہ یہ دنیا جو دو متضاد اور مخالف اسباب کی وجہ سے پیدا ہو؟ مسلّم طور پر ایسا ممکن نہیں ہے، پس معلوم یہ ہوا کہ یہ دونوں چیزیں مخلوق اور حادث ہیں اور خداوندقادر و قدیم کی تدبیر کے ماتحت ہیں۔

دوگانہ پرست مجبوراً پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے لاجواب ہوگئے، اور انھوں نے اپنا سر جھکالیا، اور کہنے لگے: ہمیں غور و فکر کرنے کی فرصت عنایت فرمائیں!

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

آیہٴ” ساٴل سائل۔۔۔“ کتب اھل سنت کی روشنی میں
انہدام جنت البقیع تاریخی عوامل اور اسباب
ماہ رمضان کے دنوں کی دعائیں
جمع بین الصلاتین
ہم اور قرآن
نہج البلاغہ کی شرح
شفاعت کا مفہوم
شب قدر کو کیوں مخفی رکھا گیا؟
شیطانی وسوسے
مودّت فی القربٰی

 
user comment