اردو
Saturday 20th of April 2024
0
نفر 0

انسان کو پیش آنے والی پریشانیوں اور مصیبتوں کا فلسفہ کیا ہے؟

۲۱۔ انسان کو پیش آنے والی پریشانیوں اور مصیبتوں کا فلسفہ کیا ہے؟

جیسا کہ سورہ شوریٰ آیت نمبر ۳۰ میں ارشاد ہوا: < وَمَا اٴَصَابَکُمْ مِنْ مُصِیبَةٍ فَبِمَا کَسَبَتْ اٴَیْدِیکُمْ> ”جو مصیبت بھی تم پر پڑتی ہے وہ تمہارے کئے ہوئے اعمال کی وجہ سے    ہوتی ہے“۔

مذکورہ آیت کے پیش نظر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم پر پڑنے والی مصیبتوں کا سرچشمہ    کیا ہے؟

اس آیت سے متعلق چند نکات کے بارے میں غور کرنے سے بات واضح ہوجاتی ہے:

۱۔ آیہٴ کریمہ سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ انسان پر پڑنے والی مصیبتیں ایک طرح سے خدا کی طرف سے سزا اور ایک چیلنج ہوتی ہیں، (اگرچہ بعض مقامات جدا ہیں جن کی طرف ہم بعد میں اشارہ کریں گے) اس وجہ سے دردناک حادثات اور زندگی میں آنے والی پریشانیوں کا فلسفہ سمجھ میں آجاتا ہے۔

جیسا کہ حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام سے منقول حدیث میں آیا ہے کہ آپ پیغمبر اکرم سے نقل کرتے ہیں کہ آنحضرت  (ص) نے فرمایا:

یہ آیہٴ شریفہ < وَمَا اٴَصَابَکُمْ مِنْ مُصِیبَةٍ ․․․> قرآن کریم کی بہترین آیت ہے، یا علی! انسان کے جسم میں کوئی خراش نہیں آتی، اور نہ ہی کسی قدم میں لڑگھڑاہٹ پیدا ہوتی مگر اس کے انجام دئے گناہوں کی بنا پر آتی ہے، اور جو کچھ خداوندعالم اس دنیا میں معاف کردیتا ہے اس سے کہیں زیادہ قیامت کے دن معاف فرمائے گا، اور جو کچھ اس دنیا میں عقوبت اور سزا دی ہے تو خدا اس سے کہیں زیادہ عادل ہے کہ روز قیامت اس کو دوبارہ سزا دے“۔(1)

لہٰذا اس طرح کے مصائب اور پریشانیاں نہ صرف یہ کہ انسان کے بوجھ کو کم کردیتی ہیں بلکہ آئندہ کے لئے بھی اس کو کنٹرول کرتی رہتی ہیں۔

۲۔ اگرچہ آیت کے ظاہر سے عمومیت کا اندازہ ہوتا ہے یعنی تمام مصیبتوں اور پریشانیوں کو شامل ہے، لیکن مشہور قاعدہ کے مطابق تمام عموم میں ایک مستثنیٰ ہوتا ہے، جیسا کہ انبیاء اور ائمہ علیہم السلام کو بہت سے مصائب اور پریشانیاں پیش آئی ہیں، جن کی وجہ سے ان حضرات کا امتحان ہوا ہے جس سے ان کا مقام رفیع و بلند ہواہے ۔

اسی طرح جن مصائب سے غیر معصومین دوچار ہوئے ہیں ان میں بھی امتحان اور آزمائش کا پہلو رہا ہے۔

یا جو مصائب جہالت کی بنا پر یا غور و فکر اورمشورہ نہ کرنے کی وجہ سے یا کاہلی اور سستی کی بناپر پیش آتے ہیں وہ خود انسان کے اعمال کا اثر ہوتا ہے۔

بالفاظ دیگر: قرآن مجید کی مختلف آیات اور معصومین علیہم السلام سے منقول روایات کے پیش نظر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ مذکورہ آیت کی عمومیت سے بعض مقامات مستثنیٰ ہیں، اور یہ کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ بعض مفسرین نے اس سلسلہ میں مستقل باب میں بحث وگفتگو کی ہے۔

خلاصہ یہ کہ بڑے بڑے مصائب اور پریشانیوں کے مختلف فلسفے ہوتے ہیں جن کے بارے میں توحید اور عدل الٰہی کی بحث میں اشارہ کیا جا چکا ہے۔

                                  

(1)مجمع البیان“ ، جلد ۹، صفحہ ۳۱، اس حدیث کو ”درالمنثور “ اور تفسیر ”روح المعانی “میں مختصر فر ق کے ساتھ بیان کیا ہے اوراس طرح کی حدیثیں بہت زیادہ ہیں

مصائب اور مشکلات ؛ استعداد کی ترقی، آئندہ کے لئے چیلنج، امتحان الٰہی، غفلت ،غرور کا خاتمہ او رگناہوں کا کفارہ ہوتے ہیں۔

لیکن چونکہ یہ مصائب اور مشکلات اکثر افراد کے لئے کفارہ اور سزا کا پہلو رکھتے ہیں لہٰذا مذکورہ آیت نے عام طور پر بیان کیا ہے، اسی طرح حدیث میں بھی وارد ہوا ہے کہ جس وقت حضرت امام زین العابدین علیہ السلام یزید کے دربار میں پہنچے تو یزید نے آپ کی طرف دیکھا اور کہا:

یا عليّ!  وَمَا اٴَصَابَکُمْ مِنْ مُصِیبَةٍ فَبِمَا کَسَبَتْ اٴَیْدِیکُمْ!“

(یعنی کربلا کا واقعہ تمہارے اعمال کا نتیجہ ہے)

لیکن امام زین العابدین علیہ السلام نے فوراً اس کے جواب میں فرمایا:

نہیں ایسا نہیں ہے، یہ آیہٴ شریفہ ہماری شان میں نازل نہیں ہوئی ہے، ہماری شان میں نازل ہونے والی دوسری آیت ہے ، جس میں ارشاد ہوتا ہے:ہر وہ مصیبت جو زمین یا تمہارے جسم و جان پر آتی ہے ، خلقت سے پہلے کتاب (لوح محفوظ) میں موجود تھی، خداوندعالم ان چیزوں سے باخبر ہے، یہ اس لئے ہے تاکہ تم مصیبتوں میں غمگین نہ ہو اور جو کچھ تمہارے پاس ہے اس پر بہت زیادہ خوش نہ ہو، ( ان مصائب کا مقصد یہ ہے کہ تم جلد فناہونے والی اس دنیوی زندگی سے دل نہ لگاؤ، یہ چیزیں تمہارے لئے ایک امتحان اور آزمائش ہے)

اس کے بعد امام علیہ السلام نے فرمایا: ”ہم کسی چیز کے نقصان پر کبھی غمگین نہیں ہوتے ، اور جو کچھ ہمارے ہاتھ میں ہوتا ہے اس پر خوش نہیں ہوتے، (ہم سب چیزوں کو جلد ختم ہونے والی مانتے ہیں، اور خداوندعالم کے لطف و کرم کے منتظر رہتے ہیں) (1)

۳۔بعض اوقات مصائب، اجتماعی پہلو رکھتے ہیں اور تمام لوگوں کے گناہوں کا نتیجہ ہوتے

                                     

(1) تفسیر ”علی بن ابراہیم“ مطابق ”نور الثقلین“ ، جلد  ۴، صفحہ ۵۸۰

ہیں جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوا :

<ظَہَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اٴَیْدِی النَّاسِ لِیُذِیقَہُمْ بَعْضَ الَّذِی عَمِلُوا لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُونَ>(1)

لوگوں کے ہاتھوں کی کمائی کی بنا پر فساد خشکی اور تری ہر جگہ غالب آگیا ہے تا کہ خدا ان کے کچھ اعمال کا مزہ چکھا دے تو شاید یہ لوگ پلٹ کر راستہ پر آجائیں“۔

یہ بات واضح ہے کہ یہ سب اس انسانی معاشرہ کے لئے ہے جو اپنے کئے ہوئے اعمال کی وجہ سے عذاب اور مشکلات میں گرفتار ہوجاتا ہے۔

اسی طرح سورہ رعد آیت نمبر ۱۱/ میں ارشاد ہوتا ہے:

< إِنَّ اللهَ لاَیُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّی یُغَیِّرُوا مَا بِاٴَنفُسِہِمْ>

اور خدا کسی قوم کے حالات کو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے کوتبدیل نہ کرلے“۔

اور اسی طرح کی دیگر آیات اس بات کی گواہی دیتی ہیں کہ انسان کے اعمال اور اس کی زندگی کے درمیان ایک خاص رابطہ ہے کہ اگر فطرت اور خلقت کے اصول کے تحت قدم اٹھائے تو خداوندعالم کی طرف سے برکت عطا ہوتی ہے،اور جب انسان ان اصول سے گمراہ ہوجاتاہے تو اس کی زندگی بھی تباہ و برباد ہوجاتی ہے ۔(۲)

اس سلسلہ میں اسلامی معتبر کتابوں میں بہت سی روایات بیان ہوئی ہیں ہم ان میں سے بعض کی طرف اشارہ کرکے اپنی بحث کو مکمل کرتے ہیں:

۱۔حضرت علی علیہ السلام اپنے ایک خطبہ میں ارشاد فرماتے ہیں:

                                     

(1) سورہ روم ، آیت ۴۱                 (۲)تفسیر المیزان ، جلد ۱۸، صفحہ ۶۱

مَاکَانَ قَطْ فِی غَضِ نِعمَةٍ مِنْ عیشٍ ،فَزَالَ عَنْھُم، إلاَّ بِذنوبِ اجترحُوھا، لاٴَنَّ اللهَ لَیْسَ بِظَلاَّمٍ لِلْعَبِیْدِ، ولَو کَانَ النَّاسُ حِینَ تنزلُ بِھم النقم ،وَ تَزُوْلُ عَنْھُم النِعَمِ ،فَزَعُوا إلیٰ رَبِّھِم بِصِدقٍ مِنْ نِیَاتِھِمْ وَوَلَّہُ مِنْ قُلُوبِھِم، لَردَّ عَلَیھِمْ کُلَّ شاردٍ،وَاٴصْلَحَ لَھُمْ کُلَّ فَاسِدٍ“(1)

خدا کی قسم کوئی بھی قوم جو نعمتوں کی تر و تازہ اور شاداب زندگی میں تھی اور پھر اس کی وہ زندگی زائل ہوگئی تو اس کا کوئی سبب ان گناہوں کے علاوہ نہیں ہے جن کا ارتکاب اس قوم نے کیا ہے، اس لئے کہ پروردگار اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا ہے، پھر بھی جن لوگوں پر عتاب نازل ہوتا ہے اور نعمتیں زائل ہوجاتی ہیں اگر صدق نیت اور تہِ دل سے پروردگار کی بارگاہ میں فریاد کریں تو وہ گئی ہوئی نعمت واپس کردے گا اور بگڑے کاموں کو بنادے گا“۔

۲۔ کتاب ”جامع الاخبار“ میں حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام سے ایک دوسری روایت نقل ہوئی ہے کہ آپ نے فرمایا:

إنَّ البَلاءَ لِلظَّالِمِ اٴدَبٌ،وَلِلْمُوٴمنِ إمْتِحَانٌ، وَلِلْاٴنْبِیَاءِ دَرجةٌ وَلِلْاٴوْلیاءِ کَرَامَةٌ“(۲)

انسان پر پڑنے والی یہ مصیبتیں؛ظالم کے لئے سزا، مومنین کے لئے امتحان، انبیاء اور پیامبروں کے لئے درجات (کی بلندی) اور اولیاء الٰہی کے کرامت و بزرگی ہوتی ہیں“۔

یہ حدیث اس بات پر ایک بہترین گواہ ہے کہ مذکورہ آیت میں کچھ مقامات مستثنیٰ ہیں۔

۳۔  ایک دوسری حدیث اصول کافی میں حضرت امام صادق علیہ السلام سے نقل ہوئی ہے کہ آپ نے فرمایا:

                                    

(1) نہج البلاغہ، خطبہ: ۱۷۸           (۲) بحار الانوار ، جلد ا۸، صفحہ ۱۹۸

إنَّ الْعَبدَ إذَا کَثُرَتْ ذُنوبُہ ،وَلَمْ یَکُن عِنْدَہُ مِنَ الْعَمِلِ مَا یکفّرُھَا، ابتلاہُ بِالحُزْنِ لِیکفّر ھا“(1)

جس وقت انسان کے گناہ زیادہ ہوجاتے ہیں اور جبران وتلافی کرنے والے اعمال اس کے پاس نہیں ہوتے تو خداوندعالم اس کو غم و اندوہ میں مبتلا کردیتا ہے تاکہ اس کے گناہوں کی تلافی ہوجائے“۔

۴۔ اصول کافی میں اس سلسلہ میں ایک خاص باب قرار دیا گیا ہے جس میں ۱۲ حدیثیں بیان ہوئی ہیں۔(۲)

البتہ یہ تمام ان گناہوں کے علاوہ ہے جن کو خداوندعالم مذکورہ آیت کے مطابق معاف کردیتا ہے اور انسان پر رحمت کی بارش برساتا ہے جو خود ایک عظیم نعمت ہے۔

ایک غلط فہمی کا ازالہ

ممکن ہے کہ بعض لوگ اس قرآنی حقیقت سے غلط فائدہ اٹھائیں اور وہ یہ کہ جو مصیبت بھی ان پر پڑے اس کا پُر جوش استقبال کریں اور کہیں کہ ہمیں ان تمام مصائب کے سامنے تسلیم ہونا چاہئے ، اور اس درس آموز اصل اور قرآنی حقیقت کے برعکس نتیجہ اخذ کریں، یعنی اس سے غلط نتیجہ اخذ کریں کہ جو بہت زیادہ خطرناک ہے۔

کبھی بھی قرآن کریم یہ نہیں کہتا کہ مصیبتوں کے سامنے تسلیم ہوجائیں اور ان کو دور کرنے کے لئے کوشش نہ کریں، اور ظلم و ستم اور بیماریوں کے مقابلہ میں خاموش رہیں، بلکہ قرآن کا فرمان

                                

(1)اصول کافی“، جلد  دوم، کتاب الایمان والکفر باب تعجیل عقوبة الذنب حدیث۲

(۲)اصول کافی“، جلد دوم، کتاب الایمان والکفر باب، تعجیل عقوبة الذنب حدیث۲

ہے: اگر اپنی تمام تر کوشش کے باوجود مشکلات دور نہ ہوں تو سمجھ لو کہ کوئی ایسا گناہ کیا ہے جس کی یہ سزا مل رہی ہے،لہٰذا اپنے گزشتہ اعمال کی طرف توجہ کریں اور اپنے گناہوں سے توبہ و استغفار کریں، اور اپنی اصلاح کریں اپنے کو برائیوں سے دور کریں۔

چنانچہ  ہم دیکھتے ہیں کہ بعض روایات میں مذکورہ آیت کو انھیں بہترین اور اہم تربیتی آثار کی بناپر ”بہترین آیت“ شمار کیا گیا ہے ،اور دوسری طرف اس سے انسان کا بوجھ بھی کم ہوتا ہے، اس کے دل میں امید کی کرن پیدا ہو تی ہے اور خدا کا عشق بھی پیدا ہو جاتا ہے۔(1)

 

 

 (1) تفسیر نمونہ ، جلد ۲۰، صفحہ ۴۴۰

 

۲۲۔ خداوندعالم نے شیطان کو کیوں پیدا کیا؟

بہت سے لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ اگر انسان خدا کی عبادت کے ذریعہ سعادت اور کمال تک پہنچنے کے لئے پیدا کیا گیا ہے تو پھر کمال اور سعادت کے مخالف شیطان کو کیوں پیدا کیا گیا، اس کی کیا دلیل ہوسکتی ہے؟ اور وہ بھی ایک ایسا وجود جو بہت ہوشیار، کینہ اور حسد رکھنے والا، مکار ، فریب کار اور اپنے ارادہ میں مصمم ہے!

(قارئین کرام!)  اگر ذرا بھی غور و فکر سے کام لیں تو اس دشمن کا وجود انسانوں کے کمال اورسعادت تک پہنچنے کے لئے مددگار ہے۔

کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں ہے دفاع کرنے والی (ہماری ) فوج ،دشمن کے مقابلہ میں بہت زیادہ شجاع او ردلیر بن جاتی تھی، اور کامیابی کی منزلوں تک پہنچ جاتی تھی۔

طاقتور اور تجربہ کار وہی سپاہی اور سردار ہوتے ہیں جو بڑی بڑی جنگوں میں دشمن کے سامنے ڈٹ جاتے ہیں اور گھمسان کی جنگ لڑتے ہیں۔

وہی سیاستمدار تجربہ کار اور طاقتور ہوتے ہیں جو بڑے سے بڑے سیاسی بحران میںسختی کے ساتھ دشمن سے مقابلہ کرتے ہیں۔

 نامی پہلوان وہی ہوتے ہیں جو اپنے مد مقابل طاقتور پہلوان سے زور آزمائی کرتے ہیں۔

اس وجہ سے کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ خداوندعالم کے نیک اور صالح بندے شیطان سے ہر روز مقابلہ کرتے کرتے دن بدن طاقتور اور قدرت مند ہوتے چلے جاتے ہیں!

آج کل کے دانشورانسانی جسم میں پائے جانے والے خطرناک جراثیم کے بارے میں کہتے ہیں: اگر یہ نہ ہوتے تو انسان کے خلیے(Cells) سست اورناکارہ ہوجاتے اور ایک احتمال کی بنا پر انسان کی رشد و نمو ۸۰سینٹی میٹر سے زیادہ نہ ہوتی، اور سب کوتاہ قد نظر آتے، لیکن آج کا انسان مزاحم میکروب سے لڑتے لڑتے بہت طاقتور بن گیا ہے۔

بالکل اسی طرح انسان کی روح ہے جو ہوائے نفس اور شیطان سے مقابلہ کرتے کرتے طاقتور ہوجاتی ہے۔

لیکن اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ شیطان کی ذمہ داری ہے کہ وہ خدا کے بندوں کو بہکائے، پہلے شیطان کی خلقت دوسری مخلوق کی طرح پاک و پاکیزہ تھی انسان میں انحراف، گمراہی ، بدبختی اور شیطنت اس کے اپنے ارادہ سے ہوتی ہیں، لہٰذا خداوندعالم نے ابلیس کو شیطان نہیں پیدا کیا تھا اس نے خود اپنے آپ کو شیطان بنایا، لیکن شیطنت کے باوجود خدا کے حق طلب بندوں کو نہ صرف یہ کہ کوئی نقصان نہیںپہنچاتا بلکہ ان کی ترقی اور کامیابی کا زینہ ہے۔ (غور کیجئے )

لیکن یہاں پر یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ خداوندعالم نے اسے قیامت تک کی زندگی کیوں دیدی، کیوں فوراً ہی اس کو نیست و نابود کیوں نہ کردیا؟!

اگرچہ گزشتہ گفتگو سے اس سوال کا جواب واضح ہوجاتا ہے لیکن ہم ایک اور چیز عرض کرتے ہیں:

دنیا امتحان اور آزمائش کی جگہ ہے، (انسان کی کامیابی اور ترقی کا باعث امتحان او رآزمائش ہے) اور ہم جانتے ہیں کہ یہ امتحان اور آزمائش ،بڑے دشمن اور طوفان سے مقابلہ کئے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔

البتہ اگر شیطان نہ ہوتا تو بھی انسان کی ہوائے نفس اور نفسانی وسوسہ کے ذریعہ انسان کا امتحان ہوسکتا تھا، لیکن شیطان کے ہونے سے اس تنور کی آگ اور زیادہ بھڑک گئی ہے، کیونکہ شیطان باہر سے بہکانے والا ہے اور ہوائے نفس انسان کو اندر سے بہکاتی ہے۔(1)

ایک سوال کا جواب:

یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ خداوندعالم ایسے بے رحم اور طاقتور دشمن کے مقابلہ میں ہمیں تن تنہا چھوڑ دے؟ اور کیا یہ چیز خداوندعالم کی حکمت اور اس کے عدل و انصاف سے ہم آہنگ ہے؟

اس سوال کا جواب درج ذیل نکتہ سے واضح ہوجائے گا اور جیسا کہ قرآن مجید میں بھی بیان ہوا ہے کہ خداوندعالم مومنین کے ساتھ فرشتوں کا لشکر بھیجتا ہے اور غیبی اور معنوی طاقت عطا کرتا ہے جس سے جہاد بالنفس اور دشمن سے برسرِ پیکار ہونے میں مدد ملتی ہے:

< إِنَّ الَّذِینَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَیْہِمْ الْمَلَائِکَةُ اٴَلاَّ تَخَافُوا وَلاَتَحْزَنُوا وَاٴَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِی کُنْتُمْ تُوعَدُون #  نَحْنُ اٴَوْلِیَاؤُکُمْ فِی الْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَفِی الْآخِرَةِ >(۲)

بیشک جن لوگوں نے یہ کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور اس پر جمے رہے ان پر ملائکہ یہ پیغام لے کر نازل ہوتے ہیں کہ ڈرو نہیں اور رنجیدہ بھی نہ ہواور اس جنت سے مسرور ہو جاوٴ جس کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے ،ہم زندگانی دنیامیں بھی تمہارے ساتھی تھے اور آخرت میں بھی تمہارے ساتھی ہیں“۔

ایک دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ شیطان کبھی بھی ہمارے دل میں اچانک نہیں آتا، اور ہماری روح کے باڈر سے بغیر پاسپورٹ کے داخل نہیںہو سکتا، اس کا حملہ کبھی بھی اچانک نہیں ہوتا، وہ ہماری

                              

(1) تفسیر نمونہ ، جلد  ۱۹ صفحہ ۳۴۵

(۲) سورہٴ فصلت ، آیت۳۰۔ ۳۱

اجازت سے ہم پر سوار ہوتا ہے، جی ہاں وہ دروازہ سے آتا ہے نہ کہ کسی مورچہ سے، یہ ہم ہی ہیں جو اس کے لئے دروازہ کھول دیتے ہیں، جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:

< إِنَّہُ لَیْسَ لَہُ سُلْطَانٌ عَلَی الَّذِینَ آمَنُوا وَعَلَی رَبِّہِمْ یَتَوَکَّلُونَ ،إِنَّمَا سُلْطَانُہُ عَلَی الَّذِینَ یَتَوَلَّوْنَہُ وَالَّذِینَ ہُمْ بِہِ مُشْرِکُونَ>(1)

شیطان ہرگز ان لوگوں پر غلبہ نہیں پاسکتا جو صاحبان ایمان ہیں اور جن کا اللہ پر توکل اور اعتماد ہے، اس کا غلبہ صرف ان لوگوں پر ہوتا ہے جو اسے سرپرست بناتے ہیں اور اللہ کے بارے میں شرک کرنے والے ہیں“۔

اصولی طور پر یہ انسان کے اعمال ہوتے ہیں جوشیطان کے سوار ہونے کا راستہ ہموار کرتے ہیں، جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:<إِنَّ الْمُبَذِّرِینَ کَانُوا إِخْوَانَ الشَّیَاطِینِ>(۲) ”اسراف کرنے والے شیاطین کے بھائی ہیں“۔

لیکن بہرحال شیطان اور اس کے مختلف سپاہیوں کے رنگارنگ جال، مختلف شہوتیں، فساد کے ٹھکانے ، استعماری سیاست، انحرافی مکاتب اور منحرف ثقافت سے نجات کے لئے ایمان و تقویٰ، اور لطف الٰہی اور خدا پر بھروسہ کرنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے، جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:

<وَلَوْلاَفَضْلُ اللهِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُہُ لاَتَّبَعْتُمْ الشَّیْطَانَ إِلاَّ قَلِیلًا> (۳)

اور اگر تم لوگوں پر خدا کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو چند افراد کے علاوہ سب شیطان کا اتباع کرلیتے“۔(۴)

                                    

 (1) سورہ نحل ، آیت ۹۹، ۱۰۰                 (۲) سورہٴ اسراء ، آیت۲۷

(۳)سورہٴ نساء ، آیت۸۳                ) تفسیر پیام قرآن ، جلد اول صفحہ ۴۲۳

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

روزے کی تعریف اور اس کی قسمیں
کیا یا علی مدد کہنا جائز ہے
علوم قرآن سے کیا مرادہے؟
صحابہ کے عادل ہونے کے متعلق تحقیق
گھریلو کتے پالنے کے بارے میں آیت اللہ العظمی ...
کیا عصمت انبیاء جبری طور پر ہے؟
کیا ابوطالب ایمان کے ساتھ اس دنیا سے گئے ہیں کہ آپ ...
تقیہ کتاب و سنت کی روشنی میں
عالم ذرّ کا عہد و پیمان کیا ہے؟
کیا نماز جمعہ کو واجب تخییری ہونے کے عنوان سے ...

 
user comment