اردو
Friday 29th of March 2024
0
نفر 0

حسینی خزانہ كے بارے میں

حسینی خزانہ كے بارے میں

حاج زین العابدین شیروانی صاحب جو تقریباً محمد بن عبد الوھاب كے ھم عصر تھے اور ایك طولانی مدت سے كربلا میں مقیم تھے اور كربلا پر وھابیوں كا حملہ ا نھیں كے زمانہ میں رونما هوا ھے، موصوف اپنی كتاب ” حدائق السیاحہ“ میں وھابیوں كے حملے كی تفصیل اس طرح لكھتے ھیں: ”روضہ امام حسین ں كا تمام زر وزیور، قندیلیں، سونے اور چاندی كے ظروف او رجواھر وغیرہ سب وہ (وھابی) ظالم لوٹ لے گئے اور باقی تمام دوسری چیزیں غارت كردیں، سوائے وہ سامان جو ان كے پهونچنے سے پھلے پھلے كاظمین پهونچادیا گیا تھا بچ گیا۔

میر عالم صاحب جو دكھن (ہند وستان) كے نوابوںمیں سے تھے انھوں نے اس واقعہ كے بعد كربلا شھر كے چاروں طرف دیوار بنوائی اور اس كے قلعہ كو گچ (چونے) اور اینٹوں سے مضبوط كرایا، اسی طرح آقا محمد خان شھریار ایران نے وھابیوں كے حملے سے پھلے حضرت امام حسین ں كے روضہ كو بنایا اور اس كے گنبد كو سونے كی اینٹوں سے بنوایا۔

وھابیوں كے نجف اشرف پر حملے كے ضمن میں یہ بات بیان كی جائے گی كہ جب نجف كے علماء اور اھم لوگوں كو یہ پتہ چلا كہ وھابی نجف پر بھی حملہ كرنے والے ھیں تو انھوں نے حضرت امیر المومنینں كے خزانہ كو كاظمین پهونچادیا۔

لیكن حضرت امام حسین (ع) كے خزانہ كو كاظمین لے جانے كے بارے میں صرف جناب شیروانی صاحب نے نقل كیا ھے اس كے علاوہ اگر كسی نے بیان كیا هو، توموٴلف كی نظر وں سے نھیں گذرا، جبكہ تمام لكھنے والوں نے یھی لكھا ھے كہ كربلائے معلی كا سب سامان غارت كردیا گیا،جیسا كہ ھم نے وھابیوں كے كربلا پر حملہ كے ضمن میں اشارہ بھی كیاھے، اور یھی بات صحیح بھی دكھائی دیتی ھے كیونكہ ساكنین كربلا كو اس حملہ كے بارے میں كوئی خبر نھیں تھی وہ بالكل بے خبر تھے تو كس طرح وہ سامان كاظمین لے جانا ممكن هوسكتا ھے۔

اور ادھر سے یہ بھی معلوم ھے كہ كربلا كے مومنین خصوصاً جوان اور كار آمد لوگ وھابیوں كے حملے سے ایك یا دو دن پھلے ھی عید غدیر كی مناسبت سے نجف اشرف زیارت كے لئے گئے تھے اور اگر ان لوگوں كو وھابیوں كے اس حملہ كا ذرا سا بھی احتمال هوتا تو یہ لوگ اپنے شھر كو چھوڑ كر نہ جاتے اور عورتوں اور بچوں او ربوڑھوں كو دشمن كے مقابلے میں چھوڑ كر نہ جاتے۔ ظاھر ھے كہ كاظمین اس خزانہ كا منتقل كرنا اسی صورت میں ممكن تھا جب ان كو اس حملہ كی خبر هوتی یا اس كا احتمال دیتے۔

كربلا ئے معلی پر وھابیوں كا حملہ، عثمانی موٴلفوں كی نظر میں

”شیخ رسول كركوكلی“ تیرهویں صدی ہجری كی ابتداء كے عثمانی موٴلف نے1132ھ سے 1237ھ تك كے عراق، ایران اور عثمانی واقعات پر مشتمل ایك كتاب اسلامبولی تركی میں لكھی ھے، اور موسیٰ كاظم نورس نے مذكورہ كتاب كا عربی میں ترجمہ كیا ھے جو ”دوحة الوزرا“ كے نام سے طبع هوچكی ھے۔

كتاب”دوحة الوزرا“ میں ایسے واقعات موجود ھیں جو خود موٴلف كے زمانہ میں رونما هوئے، اور شاید بھت سے واقعات كے وہ خود بھی شاہد هوں، لہٰذا اس كتاب كے واقعات خاص اھمیت كے حامل ھیں۔

اس كتاب كے تفصیلی اور دقیق مطالب میں سے عراق پروھابیوں كے حملے بھی ھیں اور بغداد كے والیوں كی طرف سے هونے والی تدبیروں اور عراق كے حكام كی طرف سے نجد كے علاقہ پر لشكر كشی كرنا بھی موجود ھے لہٰذا ھم یھاں پر كربلائے معلی پر وھابیوں كے حملہ كو اس كتاب سے نقل كرتے ھیں:

1214ھ میں قبیلہ خزائل اور وھابیوں كے درمیان نجف اشرف میں هوئی لڑائی اور وھابیوں كے تین سو كے قریب هوئے قتل كو دےكھتے هوئے عبد العزیز سعودی بادشاہ نے عراق كے حكام كو ایك خط لكھا كہ جب تك مقتولین كی دیت ادا نہ كی جائے اس وقت تك عراق اور نجد میں هوئی صلح باطل ھے۔

سلیمان پاشا والی ٴبغداد نے صلح نامہ كو برقرار ركھنے كے لئے عبد العزیز كے پاس ”عبد العزیزبیك شاوی“ (اپنے ایك اھم شخص) كو بھیجا جو حج كا بھی قصد ركھتا تھا اس كو حكم دیا كہ اعمال حج كے بجالانے كے بعد وھابی امیر كے پاس جائےں اور اس سے صلح نامے كو باطل كرنے سے پرھیز كرنے كے بارے میں گفتگو كریں۔

عبد العزیز بیك نے والی بغداد كے حكم كے مطابق عمل كیااور سعودی امیر عبد العزیز سے گفتگو كی لیكن كوئی فائدہ نھیں هوا، آخر میں عبد العزیز نے یہ پیشكش كی كہ وھابیوں كے بھے خون كے بدلے میں نجد كے عشایر كو ”شامیہ“ (عنّہ اور بصرہ كے درمیان) علاقہ میں اپنے چارپایوں كو چرانے دیا جائے، او راگر ان كو روكا گیا تو پھر صلح نامہ كے پیمان كو توڑنے میں كوئی حرج نھیں هوگا۔

جب عبد العزیز شاوی، عبد العزیز وھابی كو قانع كرنے سے ناامید هوگئے تو انھوں نے ایك قاصد بغداد كے والی كے پاس بھیجا اور اس كو گفتگو كی تفصیل سے آگاہ كیا اور یہ بھی بتایاكہ وھابی لوگ اپنے مقتولین كا انتقام لینے كی غرض سے عراق كا رخ كرچكے ھیں ۔

والی بغداد نے وھابیوں كے احتمالی حملہ كی وجہ سے كافی انتظامات كئے، كئی مھینہ گذر جانے كے بعد بھی وھا بی حملہ كرنے كے لئے نھیں آئے۔

1216 ھ میں شھر بغداد میں وباپھیل گئی اور آہستہ آہستہ یہ وبا شھر كے قرب وجوار میں بھی پھیلنے لگی، یہ دیكھ كر شھر كے لوگ بھاگ نكلے، اسی وقت شیخ حمود رئیس قبیلہ منتفق نے والی شھر كو خبر دار كیا كہ سعود بن عبد العزیز اپنے ایك عظیم لشكر كے ساتھ عراق پر حملہ كرنے كے لئے آرھا ھے۔

بغداد كے والی نے علی پاشا كو حكم دیا كہ وہ وھابیوں كو روك دے اور قتل غارت نہ هونے دے، علی پاشا ”دورہ“ نامی علاقہ كی طرف چلے تاكہ دوسرے لشكر بھی اس سے ملحق هوجائیں، راستہ میں بعض عشایر كا لشكر بھی اس سے ملحق هوگیا۔

ادھر جب علی پاشا اپنے لشكر كو وھابیوں سے مقابلہ كرنے كے لئے تیار كررھے تھے تو ان كو یہ خبر ملی كہ وھابیوں نے كربلا پر حملہ كردیا ھے اور وھاں پر بھت زیادہ قتل وغارت كرڈالاھے، جس میں تقریباً ایك ہزار لوگوں كو تہہ تیغ كردیا، اس وقت علی پاشا نے محمد بیك شاوی كو وزیر كے پاس بھیجا تاكہ اس كو مذكورہ واقعہ سے خبردار كرے اور یہ خبر پاتے ھی فوراً وہ كربلا كی طرف روانہ هوئے تاكہ حملہ آوروں پر كامیابی حاصل كرے اور ان سے اس قتل وغارت كا انتقام لے، اور شھر كو دشمنوں كے پنجہ سے نجات دلائے، لیكن ابھی علی پاشا شھر حلہ میں ھی پهونچے تھے كہ اس كو خبر ملی كہ وھابی لوگ قتل وغارت كے بعد ”اخیضر“ نامی علاقہ كی طرف چلے گئے ھیں، یہ سننے كے بعد علی پاشا بعض وجوھات كی بناپر حلّہ میں ھی رہ گئے، كیونكہ جب انھوں نے یہ خبر سن لی كہ وھابی لشكر كربلا سے نكل چكا ھے تو ان كا كربلا جانا بے فائدہ تھا پھر بھی احتیاط كے طور پر مختصر سے لوگوں كو كربلا بھیج دیا۔

چنانچہ وھابیوں كے حملہ كے خوف سے نجف اشرف كے خزانہ كو بغداد بھیج دیا اور مذكورہ خزانہ كو حضرت امام موسی كاظم ں كے روضہ میں ركھ دیا گیا، مذكورہ خزانہ كو لے جانے والے محمد سعید بیك تھے، اور یہ خبریں نیز وھابیوں كے حملہ كے سلسلہ میں هوئی تدبیروں كو ایرانی حكومت كے پاس پهونچادیا گیا۔

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

توحید
اختیاری اور اضطراری افعال میں فرق
حضرت امام رضا (ع) کا کلام توحید کے متعلق
عقیدہ ختم نبوت
ماہ رمضان کی آمد پر رسول خدا (ص) کا خطبہ
جن اور اجنہ کے بارےمیں معلومات (قسط-1)
حکومت خدا کا ظھور اور اسباب و حسب و نسب کا خاتمہ
شیعہ:لغت اور قرآن میں
خدا کی راہ میں خرچ کرنا
جبر و اختیار

 
user comment