اردو
Thursday 28th of March 2024
0
نفر 0

حدیث ثقلین

۴۔حدیث ثقلین

حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم ارشاد فرماتے ھیں:

اِني اوشک اٴن اُدعیٰ فاجیب،واِنی تارک فیکم الثقلین کتاب اللہ عزوجل وعترتي،کتاب اللہ حبل ممدود من السماء اِلی الارض وعترتي اَھل بیتي۔

واِنّ اللطیف الخبیر اٴخبرني اٴنّھما لن یفترقا حتیٰ یردا عليّ الحوض فانظروا کےف تخلّفوني فیھما۔

مجھے بارگا ہ خدا وندی میں بلایا گیا ھے اور قریب ھے کہ میں اس دعوت پر لبےک کھوں۔ وہ وقت آن پھنچا ھے کہ میں دار فانی کو الودع کھوں۔ میں تم میں دو گراں قدر چیزےں :اللہ کی

کتاب اوراھل بیت چھوڑ کر جا رھاھوںاللہ کی کتاب اور میری اھل بیت زمےن و آسمان کے درمیان اللہ کی دراز رسی ھے۔

 اور مجھے لطیف الخبےر نے خبر دی کہ یہ حو ض کوثر پر میرے پاس آنے تک ھر گز ایک دوسرے سے جدا نھیں ھو نگے اور دیکھومیرے بعد ان دونوں کے ساتھ کیسا سلوک کرو۔[1]

۵۔حد یث سفینہ

حاکم اپنی سند کے ساتھ حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت بیان کرتے ھیں کہ حضرت ابو ذر غفاری کعبہ کے درواز ہ کو پکڑ کر کھتے ھیں جو شخص مجھے جانتا ھے سو وہ جانتا ھے جو نھیں جانتا تو وہ سن لے:  میں ابو ذر ھوں اور میں نے حضرت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ھوئے سنا ھے:

اٴلا اِنّ مثل اٴھل بیتي فیکم مثل سفینة نو ح فی قومہ مَن رکبھا نجا و من تخلف عنھا غرق ۔

 آگا ہ ھو جاؤ تم لوگوں میں میرے اھل بیت (علیہ السلام) کی مثال حضرت نوح( علیہ السلام )کی قوم میں ان کی کشتی جیسی ھے جو اس پر سوار ھو جائے گا وہ نجا ت پا جائے گا اور جو اس کی مخا لفت کرے گا، وہ ڈوب کر ھلاک ھو جائے گا ۔ [2]

ائمہ معصومین (علیھم السلام )کی کشتی کی مثال حضرت نوح( علیہ السلام) کی کشتی سے دینے سے مراد یہ ھے کہ جس شخص نے دین اسلام کے احکام میں ان کی طرف رجوع کیا اور اس نے دین کے اصول‘ فروع اور آئمہ معصو مےن (علیھم السلام) سے تعلق جوڑا، وہ شخص عذاب جھنم سے نجات حاصل کر لے گا اور جس نے ان کے احکام کی مخا لفت کی تو وہ ڈوب جائے گا۔ جیسے نوح کی قوم نے کھاتھا کہ جب طوفان آئے گا تو لوگ بھاگ کر پہاڑ پر چڑھ جائیں گے۔ اور خدا کے اس عذاب سے بچ جائیں گے لیکن یہ سب لوگ اس پانی میں غرق ھو گئے

اور یھی ان کی تباھی کا مقام ھے۔[3]

۶۔حدیث امان

حاکم، ابن عباس سے روایت کرتے ھیں کہ ابن عباس نے کھاکہ حضرت رسول اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

النجومَ اٴمانٌ لاٴھلِ الارضِ من الغرق و اٴھلِ بیتیِ اٴمان لاٴمتي من اِلاختلاف فا ذا خالفتھا قبیلةمن العرب اختلفوا فصاروا حزب اٴبلیس۔

 اندھےرے میں ستارے اھل زمےن کے لئے امان ھیں اور میرے اھل بیت امت کے اختلاف کے وقت ان کے لئے امان ھیں، اور جو قبیلہ عرب ان کی مخالفت کرےگا ، وہ حزب ابلیس سے ھو گا ۔[4]

قارئین کرام! ھم نے یہ چند ایک قطعی نصوص اور روایات نقل کی ھیں جو کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان مبارک سے بیان ھوئی ھیں اور جس طرح آپ نے دےکھا ان کو کتب اھلسنت نے بھی بیان کیا ھے۔ اب اس خاندان عصمت کے حق میں نازل شدہ چند آیات کا تذکرہ کرتے ھیں جنھیں حق تعالی نے ان کی شان میں نازل کیا :

۱۔آیت ولایت

< إِنَّمَا وَلِیُّکُمْ اللهُ وَرَسُولُہُ وَالَّذِینَ آمَنُوا الَّذِینَ یُقِیمُونَ الصَّلاَةَ وَیُؤْتُونَ الزَّکَاةَ وَہُمْ رَاکِعُونَ >

اللہ ، اس کا رسول اور وہ لوگ جو ایمان لے آئے اور نماز پڑھتے ھیں اور رکوع کی حالت میں زکوة ادا کرتے ھیں فقط وھی تمھارے ولی ھیں۔[5]

 تمام مفسرےن کا اجماع ھے کہ یہ آیت مبارکہ حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ھوئی ھے ۔

۲۔آیت تطھیر                  

< إِنَّمَا یُرِیدُ اللهُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمْ الرِّجْسَ اٴَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیرًا>[6]

اللہ صرف یہ ارادہ رکھتا ھے کہ اے اھل بیت تم کو ھر قسم کی گندگی سے دور رکھے اور اےسا پاک و پاکیزہ رکھے جیسا پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ھے۔

اس آیت کے متعلق مفسرےن کا اجماع ھے کہ یہ آیت حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ،حضرت امام علی علیہ السلام ،حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا، حضرت امام حسن علیہ السلام اورحضرت امام حسین  علیہ السلام کی شان میں نازل ھوئی ھے۔

۳۔آیت مباھلہ

< فَمَنْ حَاجَّکَ فِیہِ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَ کَ مِنْ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اٴَبْنَاءَ نَا وَاٴَبْنَاءَ کُمْ وَنِسَاءَ نَا وَنِسَاءَ کُمْ وَاٴَنْفُسَنَا وَاٴَنْفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَہِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَةَ اللهِ عَلَی الْکَاذِبِینَ۔>[7]

اس کے متعلق واضح علم آجانے کے بعد جو شخص تم سے جھگڑا کرے تو تم کہہ دو کہ ھم اپنے بیٹوں کو بلاتے ھیں تم اپنے بےٹوں کو بلاؤ ھم اپنی خواتےن کو بلاتے ھیں تم اپنی خواتےن کو بلاؤ ھم اپنے نفسوں کو بلاتے ھیں اور تم اپنے نفسوں کو بلاؤ پھر ھم مباھلہ کرےں اور جھوٹوں پر اللہ کی لعنت کرےں۔

 تمام مفسرےن کا اجماع ھے کہ پو ری دنیا سے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کوئی بھی مباھلہ کے لئے نھیں نکلا تھا مگر بےٹوں کی جگہ حضرت امام حسن علیہ السلام اور حضرت امام حسین  علیہ السلام تھے اور نساء کی نمائندگی حضرت جنا ب فاطمة الزھرا سلام اللہ علیھانے کی اور نفس رسول فقط حضرت علی علیہ السلام تھے آپ لوگ اس آیت میں غور و فکر و تاٴمل کرےں ۔

۴۔آیت اکمال د ین اور اتمام نعمت

< الْیَوْمَ اٴَکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ وَاٴَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی وَرَضِیتُ لَکُمْ الْإِسْلاَمَ دِینًا>[8]

آج میں نے تمہارے دین کو کامل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے اس دین اسلام کو پسند کیا۔

حضرت رسول اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس موقع پر ارشاد فرمایا :اللہ اٴکبرعلیٰ اکمال اِلدین و اتمام النعمہ و رضا الربْ برسالتي و الولا یةَ لعلي من بعدي۔

اللہ اکبر آج دین کامل ھوگیا اور نعمتےں پوری ھو گئیں اللہ رب العزت میری رسالت اور میرے بھائی علی (ع) کی ولاےت پر راضی ھے۔

یہ سننے کے بعد لوگ جو ق درجوق حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی خدمت میں جا کر تھنیت و مبارک باد عرض کرنے لگے صحابہ کرام میں سب سے پھلے مبارکباد دینے والے شیخین بھی تھے ۔ےعنی حضرت عمر اور حضرت ابو بکر اور ان کامبارک باد دینے کا انداز یہ تھا :

بخٍ بخٍ لکَ یا بنِ اٴبي طالب اٴصبحت مولاي و مولیٰ کل موٴمن و موٴمنة ۔

مبارک ھو مبارک ھو اے ابو طالب (ع)کے فرزند آپ(ع) ھی میرے اور تمام مومنین اور مومنات کے مولا ھیں ۔[9]

۵۔آیت مود ت

قُلْ لاَاٴَسْاٴَلُکُمْ عَلَیْہِ اٴَجْرًا إِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبَی۔>[10]

اے رسول(ص) کہہ دیجے کہ میں تم لوگوں سے محبت اھل بیت کے علاوہ کو ئی اجر رسالت نھیں مانگتا۔

زمخشری اپنی کتاب کشاف میں کھتے ھیں کہ جب یہ آیت نازل ھوئی تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا ؟ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ(ص) کے وہ قریبی رشتہ دار کون ھیں جن کی محبت و مودت کو ھم پر واجب قرار دیا گیا ھے۔ حضرت نے ارشاد فرمایا:

  وہ علی ،(ع)فاطمہ(ع) اور ان کے دو بیٹے ھیں۔

قُلْ لاَاٴَسْاٴَلُکُمْ عَلَیْہِ اٴَجْرًا إِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبَی۔>

اے رسول کہہ دیں تم سے اھلےبیت کی محبت کے علاوہ کسی چیز کے متعلق سوال نھیں کیا جائے گا

 زمخشری نے اپنی کتاب کشاف میںاس آیت کی تفسیر کرتے ھوئے بیان کیا ھے ان کے علاوہ بھی قرآن کریم کی متعدد آیات اور احادیث حضرت علی علیہ السلام کی شان میں موجود ھیں مثلاً۔اٴقضاکُم علي

تم میں سب سے بڑے قاضی حضرت علی (ع)ھیں ۔

اٴنا مدینة العلم  وعلی بابُھا۔

میں علم کا شھر ھوں اور علی (ع) اس کا دروازہ ھیں ۔

علی اٴعلم اُمتیِ بالسُّنّہ ۔

علی (ع)میری امت میں سنت کو سب سے زیادہ جانتے ھیں ۔

علي مع الحقِ والحقُ مع علی ۔

علی (ع)حق کے ساتھ ھیں اور حق علی (ع)کے ساتھ ھے ۔

علي ولیُّکم بعدی۔

میرے بعد فقط علی (ع)ھی تمہاراولی ھے ۔وغیرہ وغیرہ

جب آپ لوگ ان قطعی نصوص کو جان چکے ھیں تو پھر حق کو چھوڑ کر گمراھی کی راہ اختیار کرنا اور حق کے مقابلے میں خواھشات نفس کی پیروی کرنا قرین قیاس نھیں ھے ۔ آپ کو خلیفہ اول کے ان کلمات کے متعلق خوب غور فکر کرنا چاھیے جسے وہ اپنی بیعت کے دوسرے دن اس طرح بیان کر رھے ھیںاورعذر خواھی کے بعد کھتے ھیں:  میری بیعت ایک قلادہ ھے ۔اللہ اس کے شر اور فتنہ سے بچائے ۔[11]

وہ ایک اور مقام پر کھتے ھیں:  اے لوگو! میں تم پر بادشاہ بنایا گیا ھوں حالانکہ میں تم سے بھتر نھیں ھوں (بھرحال)اگر میں اچھا کام کروں تو میری مدد کرنا اور اگر غلط کام کروں تو مجھے راہ راست پر لانا کیونکہ مجھ پر ھر وقت ایک شیطان سوار رھتا ھے جو مجھے راہ راست سے دور رکھتا ھے۔[12]

اب سوچنے کی بات یہ ھے کہ حضرت ابوبکر نے تو اپنی شرعی ذمہ داری کاپاس اور لحاظ کیا اور انھوں نے اپنے بعد حضرت عمر کو خلیفہ نامزد کردیا۔ اسی طرح حضرت عمر نے بھی اپنی شرعی ذمہ داری کا خیال رکھا کہ اسے بھی خلیفہ بنانا چاھیے اور اس نے ایک شوری تشکیل دی۔ یہاں تک کہ معاویہ کی بھی یھی رائے تھی کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کو خلیفہ کے بغیر نہ چھوڑا جائے اور اس نے اپنے بیٹے یزید کوخلیفہ نامزد کردیا۔

توکیا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنا خلیفہ بنانے کا کوئی خیال نہ تھا ؟کہ وہ بھی اپنی امت کے لئے اس قسم کا اھتمام کرتے ؟

کیا ان کی اتنی بھی ذمہ داری نہ تھی کہ وہ اپنے بعد اپنا خلیفہ نامزد فرماتے؟ یا اللہ تعالی کو بھی اس امت مرحومہ کے متعلق معاویہ یا معاویہ سے پھلے لوگو ں برابر بھی خیال نہ تھا ؟!!!



[1] مسند احمد ج ۳ ص ۱۷ تا ۲۶  مسند احمد نے اس حدیث کو ابی سعید خدری سے نقل کیا ھے ۔

[2] المستدرک علی الصحیحین   ج ۳ ص ۱۵۱ ۔

[3] بحوث فی الملل والنحل  ج ۱ ص ۳۳۔

[4] المستدرک علی الصحیحین   ج ۳  ص۱۴۹۔

[5] سورہ  مائدہ :۵۵۔           v

[6] سورہ احزاب:۳۳۔

[7] سورہ آل وعمران آیت ۶۱۔

[8] سورہ مائدہ:۳۔

[9] الا لھیات ج ۲ ص۵۸۶ ۔    

[10] سورہ شوریٰ آیت۲۳۔

[11] شرح نھج البلاغہ ج۶ ص۴۷۔        

[12] شرح نھج البلاغہ ج۶ص ۲۰۔

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

قرآن میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ(سوم)
اچھي عبادت سے خدا خوش ہوتا ہے
نبوت کي نشانياں
حضرت آدم علیه السلام وحوا کے کتنے فرزند تھے؟
عام الحزن
دعوت اسلام کا آغاز
کاتبان وحی
قرآن میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ(اول)
خلافت ظاہرى سے شہادت تك 3
حضرت امام حسين عليہ السلام اور اسلامي حکومت

 
user comment