اردو
Friday 19th of April 2024
0
نفر 0

جناب موسیٰ (ع) نے دیدارخدا کی درخواست کیوں کی؟

 جناب موسیٰ (ع) نے دیدارخدا کی درخواست کیوں کی؟

سورہ اعراف آیت نمبر ۱۴۳/ میں جناب موسیٰ علیہ السلام کی زبانی نقل ہوا کہ انھوں نے عرض کی: <ربِّ اٴرني اٴنظرُ إلیکَ> (پالنے والے! مجھے اپنا دیدار کرادے) ، اس آیت کے پیش نظر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جناب موسیٰ جیسا بزرگ اور اولو العزم نبی یہ بات اچھی طرح جانتا تھا کہ خداوندعالم نہ جسم رکھتا ہے اور نہ مکان اور نہ ہی قابل دیدار ہے، تو پھر انھوں نے ایسی درخواست کیوں کی جو کہ ایک عام آدمی سے بھی بعید ہے؟

اگر چہ مفسرین نے اس سلسلہ میں مختلف جواب پیش کئے ہیں لیکن سب سے واضح جواب یہ ہے کہ جناب موسیٰ علیہ السلام نے یہ درخواست اپنی قوم کی طرف سے کی تھی، کیونکہ بنی اسرائیل کے بہت سے جاہل لوگ اس بات پر اصرار کرتے تھے کہ خدا پر ایمان لانے کے لئے پہلے اس کودیکھیں گے، (سورہ نساء کی آیت نمبر ۱۵۳/ اس بات کی شاہد ہے) جناب موسیٰ علیہ السلام کو خدا کی طرف سے حکم ملا کہ اس درخواست کو بیان کریں، تاکہ سب لوگ واضح جواب سن سکیں، چنا نچہ کتاب عیون اخبار الرضا علیہ السلام میں امام علی بن موسیٰ الرضا سے مروی حدیث بھی اسی مطلب کی وضاحت کرتی ہے۔(۲)

                               

(1) تفسیر نمونہ ، جلد ۵، صفحہ ۳۸۱                 (۲) تفسیر نور الثقلین ، جلد ۲، صفحہ ۶۵

انھیں معنی کو روشن کرنے والے قرائن میں سے ایک قرینہ یہ ہے کہ اسی سورہ کی آیت نمبر ۵۵ میں جناب موسی علیہ السلام اس واقعہ کے بعد عرض کرتے ہیں: ”اٴتھلُکنا بِما فَعَلَ السُّفَھاء مِنَّا“ ( کیا اس کام کی وجہ سے ہمیں ہلاک کردے گا؟ جس کو ہمارے بعض کم عقل لوگوں نے انجام دیا ہے؟)

اس جملہ سے یہ بات اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ جناب موسیٰ علیہ السلام نے نہ صرف اس طرح کی درخواست نہیں کی تھی بلکہ شاید وہ ۷۰/ افراد جو آپ کے ساتھ کوہِ طور پر گئے تھے ان کا بھی یہ عقیدہ نہیں تھا، وہ صرف بنی اسرائیل کے دانشور اورلوگوں کی طرف سے نمائندے تھے، تاکہ ان جاہل لوگوں کے سامنے اپنی آنکھوں دیکھی کہانی کو بیان کریں جو خدا کے دیدار کے لئے اصرار کررہے تھے۔(1)

 (1) تفسیر نمونہ ، جلد ۶، صفحہ ۳۵۶

 

 

۱۱۔ عرش خدا کیا ہے؟

قرآن مجید کی آیات میں تقریباً بیس مرتبہ ”عرش الٰہی“ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، جس کی بنا پر یہاںیہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ عرش الٰہی سے کیا مراد ہے؟

ہم نے مکرر عرض کیا ہے کہ ہماری محدود زندگی کے لئے وضع شدہ الفاظ عظمت خدا یا اس کی عظیم مخلوق کی عظمت کو بیان کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے، لہٰذا ان الفاظ کے کنائی معنی اس عظمت کا صرف ایک جلوہ دکھاسکتے ہیں، اسی طرح لفظ ”عرش“ بھی ہے جس کے معنی ”چھت“ یا ”بلند پایہ تخت“ کے ہیں اس کرسی کے مقابلہ میں جس کے پائے چھوٹے ہوتے ہیں،لیکن اس کے بعد قدرت خدا کی جگہ ”عرش پروردگار “ استعمال ہونے لگا۔

اب اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ”عرش الٰہی“ سے کیا مراد ہے اور اس لفظ کے استعمال سے کیا معنی مراد لئے جاتے ہیں؟ اس سلسلہ میں مفسرین، محدثین اور فلاسفہ حضرات کے یہاں بہت اختلاف پایا جاتا ہے۔

کبھی ”عرش الٰہی“ سے ”خداوندعالم کا لامحدود علم“ مراد لیا جاتاہے۔

کبھی ”خداوندعالم کی مالکیت اور حا کمیت “کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔

اور کبھی خدا وندعالم کی صفات کمالیہ اور صفات جلالیہ مراد لی جاتی ہیں، کیونکہ ان میں سے ہر صفت ؛خداکی عظمت کو بیان کرنے والی ہے، جیسا کہ بادشاہوں کے تخت ان کی عظمت اور شان و شوکت کی نشانی ہوا کرتی ہے۔

جی ہاں!خداوندعالم ؛عرش علم، عرش قدرت، عرش رحمانیت اور عرش رحیمیت رکھتا ہے۔

(قارئین کرام!)  مذکورہ تینوں تفسیر وں کے لحاظ سے ”عرش“ کالفظ خداوندعالم کی صفات کی طرف اشارہ ہے ، کسی وجود خارجی کی طرف نہیں، ( مثلاً کوئی چیز خارج میں موجود ہو)

اہل بیت علیہم السلام سے منقول بعض روایات میں بھی اسی بات کی تائید ہوئی ہے، جیسا کہ حفص بن غیاث امام صادق علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں کہ میں نے < وَسِعَ کُرْسِیُّہُ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضَ>(1) کے بارے میں سوال کیا ، تو امام علیہ السلام نے فرمایا: ”اس سے مراد خداوندعالم کا ”علم“ ہے“۔(۲)

امام صادق علیہ السلام سے ایک دوسری حدیث میں بیان ہوا ہے کہ ”عرش“ یعنی وہ علم جس کو انبیاء کو عطا کیا ہے اور ”کرسی“ وہ علم جو کسی کو عطا نہیں ہوا ہے۔(۳)

حالانکہ بعض دوسرے مفسرین نے دیگر روایات سے الہام لیتے ہوئے ”عرش“ اور ”کرسی“ کے معنی خداوندعالم کی دو عظیم مخلوق تحریر کئے ہیں۔

ان میں سے بعض لوگوں کا کہنا ہے: عرش سے تمام کائنات مراد ہے۔

بعض کہتے ہیں: تمام زمین و آسمان ”کرسی“ کے اندر قرار دئے گئے ہیں، بلکہ زمین و آسمان ”کرسی“ کے مقابلہ میں وسیع و عریض بیابان میں پڑی ایک انگوٹھی کی طرح ہے، اور خود ”کرسی“ خداوندعالم کے ”عرش“ کے مقابلہ میں وسیع و عریض بیابان میں پڑی ایک انگوٹھی کی طرح ہے۔

                                    

(1)سورہٴ بقرہ ، آیت ۲۵۵

(۲) بحار الانوار ، جلد ۵۸، صفحہ ۲۸ (حدیث ۴۶ و۴۷)”اس کی کرسی، علم و اقتدار زمین و آسمان سے وسیع تر ہے“۔

 (۳) بحار الانوار ، جلد ۵۸، صفحہ ۲۸ (حدیث ۴۶ و۴۷)

اور کبھی انبیاء علیہم السلام ،اوصیاء اور کامل مومنین کے ”دل“ کو  ”عرش“  کہا گیاہے، جیسا کہ حدیث میں بیان ہوا ہے:

إنَّ قَلبَ الموٴمن عَرش الرَّحمٰن“(1)

بے شک مومن کا دل، عرش الٰہی ہے“۔

اور حدیث قدسی میں بھی بیان ہوا ہے:

لَمْ یسعني سمائي ولا اٴرضي و وسعني قلب عبدي الموٴمن“(۲)

میرے زمین و آسمان ، میری وسعت کی گنجائش نہیں رکھتے لیکن میرے مومن بندہ کا دل میرا مقام واقع ہوسکتاہے“۔

(لیکن جہاں تک انسان کی قدرتِ تشخیص اجازت دیتی ہے) معنی ”عرش“ سمجھنے کے لئے بہترین راستہ یہ ہے کہ قرآن مجید میں جہاں جہاں لفظ ”عرش“ استعمال ہوا ہے ان کی دقیق طریقہ سے تحقیق و جستجو کریں۔

قرآن مجید میں یہ لفظ مختلف مقامات پر استعمال ہوا ہے:

< ثُمَّ اسْتَوَی عَلَی الْعَرْشِ>(۳)

اور اس کے بعد عرش پر اپنا اقتدار قائم کیا

بعض آیات میں ان جملوں کے بعد ”یدبر الامر“ آیاہے یاایسے جملے آئے ہیں جو خداوندعالم کے علم اور اس کی تدبیر کی حکایت کرتے ہیں۔

                                     

(1) بحار الانوار ، جلد ۵۸، صفحہ ۳۹

(۲) بحار الانوار ، جلد ۵۸، صفحہ ۳۹

(۳) سورہٴ اعراف ، آیت۵۴۔ سورہٴ یونس ، آیت۳۔ سورہٴ رعد ،آیت۲۔ سورہٴ فرقان ، آیت۵۹ سورہٴ سجدہ ،آیت۴۔ سورہٴ حدید ، آیت۴

یا قرآن کریم کی بعض دوسری آیات میں ”عرش“ کے لئے”عظیم“ جیسی صفت بیان ہوئی ہے جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے: <وَہُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیمِ >(1)اور وہی عرش اعظم کا پروردگار ہے“۔

اورکبھی حاملان عرش کے سلسلہ میں گفتگو ہوئی ہے جیسے محل بحث آیہ شریفہ۔

کبھی ان ملائکہ کے بارے میں گفتگو ہوئی ہے جو عرش کو گھمانے والے ہیں، مثلاً:<وَتَرَی الْمَلاَئِکَةَ حَافِّینَ مِنْ حَوْلِ الْعَرْشِ>(۲) ”اور تم دیکھو گے کہ ملائکہ عرش الٰہی کے گرد گھیرا ڈالے ہوئے اپنے رب کی حمد وتسبیح کررہے ہیں“۔

کبھی ارشاد ہوتا ہے کہ عرش الٰہی پانی پر ہے: <وَکاَنَ عَرْشُہُ عَلَی الْمَاءِ>(ہود/۷)

قرآن کریم کے ان الفاظ اور اسلامی روایات میں بیان ہوئی دورسری عبارتوں سے یہ بات اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ لفظ ”عرش“ کا مختلف معنی پر اطلاق ہوتا ہے، اگرچہ سب کا سرچشمہ ایک ہی ہے۔

عرش“ کے ایک معنی وہی مقام ”حکومت، مالکیت اور عالم ہستی کی تدبیر ہے“، کیونکہ بعض معمولی اوقات میں عرش کہہ کر کنایةً ایک حاکم کا اپنی رعایا پر مسلط ہونے کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے، جیسا کہ کہا جاتا ہے: ”فلان ثل عرشہ“ یہ کنایہ ہے کہ فلاں بادشاہ کی طاقت ختم ہوگئی، جیسا کہ فارسی زبان میں بھی کہا جاتا ہے: ”پایہ ہای تخت او درہم شکست“ (یعنی اس کی حکومت کی چولیں ہل گئیں)

عرش“ کے ایک معنی ”عالم ہستی کا مجموعہ“ ہے، کیونکہ دنیا کی تمام چیزیں اس کی عظمت و بزرگی کی نشانی ہیں، اور کبھی ”عرش“ سے ”آسمان“ اور ”کرسی“ سے ”زمین“ کو مراد لیا جاتا ہے۔

                                 

(1)سورہٴ توبہ آیت۱۲۹                  (۲)سورہٴ زمر آیت۷ ۵

اور کبھی ”عرش“ سے ”عالم ماوراء طبیعت“ اور کرسی سے عالم مادہ (چاہے وہ زمین ہو یا آسمان) مراد لیا جاتا ہے جیسا کہ آیة الکرسی میں بیان ہوا ہے: <وَسِعَ کُرْسِیُّہُ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضَ>

اور چونکہ خداوندعالم کی مخلوقات اور اس کی معلومات اس کی ذات سے جدا نہیں ہیں لہٰذا کبھی کبھی ”عرش“ سے ”علم خدا“ مراد لیا جاتا ہے۔

اوراگر پاک اور مومن بندوں کے دلوں کو ”عرش الرحمن“ کہا گیا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ مومنین کے قلوب خداوندعالم کی ذات پاک کی معرفت کی جگہ اور اس کی عظمت اور قدرت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔

لہٰذا ہر جگہ پر استعمال ہونے والے لفظ ”عرش“کو اس جگہ موجود قرائن سے سمجھا جاسکتا ہے کہ اس جگہ ”عرش“ سے کون سے معنی مراد ہیں، لیکن یہ تمام معانی اس حقیقت کو بیان کرتے ہیں کہ ”عرش“ خدا کی عظمت و بزرگی کی نشانی ہے۔

محل بحث آیہٴ شریفہ( جس میں حاملان عرش الٰہی کی گفتگو ہے) میں ممکن ہے کہ اس سے وہی حکومت خدا اور عالم ہستی میں اس کی تدبیر مراد ہو ، اور حاملان عرش سے مراد خداوندعالم کی حاکمیت اور اس کی تدبیر کو نافذ کرنے والے مراد ہوں۔

اور یہ بھی ممکن ہے کہ تمام کائنات، یا عالم ماوراء طبیعت کے معنی میں ہو، اور حاملان عرش سے مراد وہ فرشتے ہوں جو حکم خدا سے اس کائنات کی تدبیر کے ستون اپنے شانوں پر اٹھائے ہوئے ہوں۔(1)

 (1) تفسیر نمونہ ج۲۰، صفحہ ۳۵

 

 

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

علوم قرآن سے کیا مرادہے؟
صحابہ کے عادل ہونے کے متعلق تحقیق
گھریلو کتے پالنے کے بارے میں آیت اللہ العظمی ...
کیا عصمت انبیاء جبری طور پر ہے؟
کیا ابوطالب ایمان کے ساتھ اس دنیا سے گئے ہیں کہ آپ ...
تقیہ کتاب و سنت کی روشنی میں
عالم ذرّ کا عہد و پیمان کیا ہے؟
کیا نماز جمعہ کو واجب تخییری ہونے کے عنوان سے ...
ہم شب قدر میں قرآن سر پر کیوں رکھتے ہیں ؟
کیا حدیث" اما الحوادث الواقعہ" کی سند میں ...

 
user comment