اردو
Tuesday 23rd of April 2024
0
نفر 0

لعان

لعان

میاں بیوی کے درمیان ایک خاص مباہلہ کو لعان کہتے ہیں جس کا اثر یہ ہے کہ شرعی حد سے بچاؤ ہوجاتا ہے او ربچے کی نفی ہوجاتی ہے ۔ مرد اپنی بیوی کو کسی غیر مرد کے ساتھ مقاربت کرتے دیکھتاہے اور کہتا ہے عورت نے بد کاری کی ہے گواہ پیش نہیں کرتا عورت انکاری ہے نیز مرد یہ کہتا ہے بچہ میرا نہیں عورت مدعی ہے کہ بچہ اسکا ہے اللہ نے اسکا حل لعان کی صورت میں پیش کیا ۔ مرد اپنا بیان چار دفعہ دہرائے چار دفعہ گواہی دے پانچویں دفعہ جھوٹے ہونے میں اپنے اوپر اللہ کی لعنت کا تذکرہ کرے یہی کام عورت کرے ۔ حد جاری نہیں ہو گی او ربچہ کی بھی نفی ہو جائے گی ۔ ارشاد رب العزت ہے : وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ أَزْوَاجَہُمْ وَلَمْ یَکُنْ لَّہُمْ شُہَدَاءُ إِلاَّ أَنفُسُہُمْ فَشَہَادَةُ أَحَدِہِمْ أَرْبَعُ شَہَادَاتٍم بِاللہ إِنَّہ لَمِنَ الصَّادِقِیْنَ وَالْخَامِسَةُ أَنَّ لَعْنَةَ اللہ عَلَیْہِ إِنْ کَانَ مِنَ الْکَاذِبِیْنَ وَیَدْرَأُ عَنْہَا الْعَذَابَ أَنْ تَشْہَدَ أَرْبَعَ شَہَادَاتٍم بِاللہ إِنَّہ لَمِنَ الْکَاذِبِیْنَ وَالْخَامِسَةَ أَنَّ غَضَبَ اللہ عَلَیْہَا إِنْ کَانَ مِنَ الصَّادِقِیْنَ وَلَوْلَافَضْلُ اللہ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُہ وَأَنَّ اللہ تَوَّابٌ حَکِیْمٌ ۔ "او رجو لوگ اپنی بیو یو ں پرزنا کی تہمت لگا ئیں او ر انکے پا س خود ان کے سوا کو ئی گواہ نہ ہو تو انمیں سے ایک شخص یہ شہادت دے کہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر گواہی دے کہ وہ سچا ہے او رپانچویں بار کہے کہ اگر وہ جھوٹا ہے تو اس پر اللہ کی لعنت ہو او رعورت سے سزا اس صور ت میں ٹل سکتی ہے کہ وہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر گواہی دے کہ یہ شخص جھوٹا ہے او رپانچویں مرتبہ کہے کہ مجھ پر اللہ کا غضب ہو اگر وہ سچا ہے او راگرتم پراللہ کا فضل ا ور اسکی رحمت نہ ہوتی( توتمہیں اس کی خلاصی نہ ملتی )او ر یہ کہ اللہ بڑا توبہ کو قبول کرنے والا اور حکمت والا ہے۔ "( سورہ نور : ۶ تا ۹) صیغہ طلاق کے بغیر عورت مرد کا باہمی رابطہ ختم او ربچہ کی مرد سے نفی ہو جائے گی دونوں سے حد ٹل جائے گی یعنی مرد سے حد قذف (تہمت ) ۸۰ کوڑے او رعورت سے حد زنا ۱۰۰ کوڑے ٹل جائیں گے ۔

طلاق

طلاق امر شرعی ہے لیکن اللہ وصل کو پسند کرتا ہے فصل کو نہیں ملاپ کو پسندکرتاہے انقطاع کو نہیں مل جل کر رہنے اتحاد و اتفاق کے ساتھ زندگی گزارنے کو پسندیدہ قرار دیا ہے ۔ جدائی، تفریق بچوں کی پریشانی خاندان میں باہمی عداوت کا موجب طلاق بارگاہ خداوندی میں نا پسندیدہ ہے لیکن اگر کو ئی صور ت وصل کی نہیں تو پھر حکم ہے کہ اچھے انداز سے اچھے طریقے سے لڑائی جھگڑا کئے بغیر جدا ہو جانا چاہیے جدا ہونے کا نام طلاق ۔ طلاق مقاربت سے پہلے۔ ارشاد رب العزت ہے: لاَجُنَاحَ عَلَیْکُمُ إِنْ طَلَّقْتُمْ النِّسَاءَ مَا لَمْ تَمَسُّوْہُنَّ أَوْ تَفْرِضُوْا لَہُنَّ فَرِیْضَةً وَّمَتِّعُوْہُنَّ عَلَی الْمُوْسِعِ قَدَرُہ وَعَلَی الْمُقْتِرِ قَدَرُہ مَتَاعًام بِالْمَعْرُوْفِ حَقًّا عَلَی الْمُحْسِنِیْنَ وَإِنْ طَلَّقْتُمُوْہُنَّ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَمَسُّوہُنَّ وَقَدْ فَرَضْتُمْ لَہُنَّ فَرِیْضَةً فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُمْ إِلاَّ أَنْ یَعْفُوْنَ أَوْ یَعْفُوَ الَّذِیْ بِیَدِہ عُقْدَةُ النِّکَاحِ وَأَنْ تَعْفُوْا أَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی وَلَاتَنْسَوْا الْفَضْلَ بَیْنَکُمْ إِنَّ اللہ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ ۔ "اس میں کو ئی مضائقہ نہیں کہ تم عورتو ں کو ہاتھ لگانے او ر مہر معین کرنے سے پہلے طلاق دے دواس صورت میں انہیں کچھ دے کررخصت کرو مالدار اپنی وسعت کے مطابق او رغریب آدمی اپنی حیثیت کے پیش نظردستور کے مطابق دے یہ نیکی کرنے والوں پر حق ہے ۔ او راگر تم عورتوں کو ہاتھ لگانے سے قبل اور ان کے لیے مہر معین کر چکنے کے بعد طلاق دے دو تو اس صورت میں تمہیں اپنے مقرر کردہ مہر کا نصف اد ا کرنا ہو گا مگر یہ کہ وہ اپنا حق چھوڑ دیں یا جس کے ہاتھ میں عقد کی گرہ ہے وہ حق چھوڑ دے اور تمہارا اس مال چھوڑ دینا تقویٰ کے زیادہ نزدیک ہے اور تم آپس کی فضیلت کو نہ بھولو یقینا تمہارے اعمال پر اللہ کی خوب نگا ہ ہے ۔ "( سورہ بقرہ : ۲۳۶۔۲۳۷) عورت غیر مدخولہ ( یعنی مقاربت نہ کی گئی ) کو طلاق دینے کی صورت میں نصف حق مہر دینا ہو گا ۔ طلاق مقاربت کے بعد ارشاد رب العزت ہے: وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَہُنَّ فَأَمْسِکُوْہُنَّ بِمَعْرُوْفٍ أَوْ سَرِّحُوہُنَّ بِمَعْرُوْفٍ وَلَا تُمْسِکُوْہُنَّ ضِرَارًا لِّتَعْتَدُوْا وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہ وَلَاتَتَّخِذُوْا آیَاتِ اللہ ہُزُوًا وَّاذْکُرُوا نِعْمَةَ اللہ عَلَیْکُمْ وَمَا أَنزَلَ عَلَیْکُمْ مِّنُ الْکِتَابِ وَالْحِکْمَةِ یَعِظُکُمْ بِہ وَاتَّقُوا اللہ وَاعْلَمُوْا أَنَّ اللہ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ ۔ "او رجب تم اپنی عورتوں کو طلا ق دے دواو روہ عدت کے آخری دنوں میں پہنچ جائیں تو انہیں یا تو شائستہ طریقے سے اپنے نکاح میں رکھو ( رجوع کرلو ) یا شائستہ طور پر رخصت کردو او رصرف ستانے کی خاطر۔ زیادتی کرنے کے لیے۔ انہیں روکے نہ رکھو او رجوایسا کرے گا وہ اپنے اوپر ظلم کرے گا او رتم اللہ کی آیا ت کا مذاق نہ اڑاؤاو راللہ نے جونعمت تمہیں عطا کی ہے اسے یادرکھو او ر( یہ بھی یاد رکھو )کہ تمہاری نصیحت کے لیے اس نے تم پر کتاب اور حکمت نازل کی ہے ۔ او راللہ سے ڈرو او ریہ جان لو کہ اللہ کو ہر چیز کا علم ہے ۔"( سورہ بقرہ : ۲۳۱) طلا ق دینے والے کیلئے ضروری ہے کہ وہ بالغ عاقل بااختیار ہو اپنی مرضی سے طلاق دے مجبورشدہ شخص سے طلاق واقع نہیں ہوتی ۔ عورت ایام حیض میں نہ ہو دو عادل گواہ طلاق کے وقت موجود ہو ں عادل جن کے گنا ہ وبرابی کا کسی کوعلم نہ ہو اور عمومی شہرت اچھی ہو پھر صیغہ طلاق پڑھا جائے ان شرائط میں سے کوئی ایک مفقود ہو جائے تو طلاق واقع نہیں ہو گی ۔

تین طلاقیں

ایک ہی نشست میں ایک ہی طلاق ہوتی ہے خواہ صیغہ جس قدر تعداد میں پڑھا جائے جیسے نکاح کے صیغے بار بارپڑھنے سے نکاح ایک ہی ہوتاہے ۔ ارشاد رب العزت ہے: اَلطَّلاَقُ مَرَّتَانِ فَإمْسَاکٌم بِمَعْرُوْفٍ أَوْ تَسْرِیْحٌ بِإِحْسَانٍ وَلَایَحِلُّ لَکُمْ أَنْ تَأْخُذُوْا مِمَّا آتَیْتُمُوْہُنَّ شَیْئًا إِلاَّ أَنْ یَخَافَا أَلاَّ یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللہ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللہ فَلاَجُنَاحَ عَلَیْہِمَا فِیْمَا افْتَدَتْ بِہ تِلْکَ حُدُوْدُ اللہ فَلَا تَعْتَدُوْہَا وَمَنْ یَتَعَدَّ حُدُوْدَ اللہ فَأُوْلٰئِکَ ہُمْ الظَّالِمُوْنَ ۔ "طلاق دو بار ہے یا تو پھر شائستہ طور پر عورتوں کو اپنی زوجیت میں رکھ لیا جائے یا اچھے پیرائے میں انہیں رخصت کر دیا جائے اور یہ جائز نہیں کہ جو کچھ تم انہیں دے چکے ہو اس میں سے کچھ لے لو مگر یہ کہ زن و شوہر کو خوف ہو کہ وہ اللہ کی حدود قائم نہیں رکھ سکیں گے پس اگر تمہیں خوف ہو کہ زوجین اللہ کی حدود کو قائم نہیں رکھ سکیں گے تو (اس مال میں) کوئی مضائقہ نہیں جو عورت بطور معاوضہ دے (کر خلع کرائے)یہ اللہ کی مقرر کردہ حدود ہیں سو ان سے تجاوز نہ کرو اور جو لوگ حدودالٰہی سے تجاوز کرتے ہیں پس وہی ظالم ہیں ۔"( سورہ بقرہ :۲۲۹) جب کوئی شخص اپنی بیوی کو طلاق دیتاہے تین ماہ گذر گئے عورت جداہو گئی اب وہ پھر نکاح کر سکتاہے (یہ ہے ایک طلاق) اختلاف ہو اطلاق کی نوبت آگئی طلاق دیدی ۔تین ماہ گذر گئے اب پھر نکاح کر سکتاہے (یہ ہیں دو طلاقیں )اب اگر پھر ضرورت محسوس ہوئی کہ طلاق دے اور طلاق کے بعد تین ماہ گذر گئے اب اس کو پھر نکاح کرنے کا حق نہیں ہے مگر حلالہ کے بعد ۔ ارشاد رب العزت ہے : فَإِنْ طَلَّقَہَا فَلَا تَحِلُّ لَہ مِنْ م بَعْدُ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہ فَإِنْ طَلَّقَہَا فَلَا جُنَاحَ عَلَیْہِمَا أَنْ یَّتَرَاجَعَا إِنْ ظَنَّا أَنْ یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللہ وَتِلْکَ حُدُودُ اللہ یُبَیِّنُہَا لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ ۔ "اگر( تیسری بار) طلاق ہوگئی تو یہ عورت اس مرد کے لیے اس وقت تک حلال نہ ہوگی جب تک کسی دوسرے مرد سے نکاح نہ کرے ہاں پھر اگر دوسرا شوہر اسے طلاق دے( اپنی مرضی اور اختیار سے) اور وہ عورت و مرد دونوں ایک دوسرے کی طرف رجوع کریں تو کوئی حرج نہیں بشرطیکہ انہیں امید ہو کہ وہ حدود الہی کو قائم رکھ سکیں گے اور یہ ہیں اللہ کی مقررکردہ حدود جنہیں اللہ دانشمندوں کے لیے بیان کرتا ہے۔"(سورہ بقرہ :۲۳۰) مفتی اعظم شیخ محمود شلتوت رئیس جامعہ ازہر نے بھی اسی مسلک کو قبو ل کیاہے ۔ فرمایامیں ہے ایک عرصہ مشرق کے کالج میں مذاہب کی تحقیق میں لگا رہا اور انکے درمیان موازنہ و مقابلہ میں مصروف رہاکئی مرتبہ ایسا ہوتا کہ میں کئی مسائل میں مختلف مذاہب کے آرا ء و نظریا ت کی طرف رجوع کرتا بہت سے مقامات پر میں نے شیعہ مذہب کے استدلالات کو محکم اور استوار دیکھا تو ان کے سامنے جھکا او ر میں نے ان میں اے اہل اسلام غور و فکر کرو کہ شیعہ نظریہ کو انتخاب کر لیا ایک ہی وقت میں تین طلاقیں دے ڈالی جاتی ہیں۔ جیسا کہ آجکل جہلا کا عام طریقہ ہے تو یہ شریعت کی رو سے سخت گنا ہ ہے۔ مولانا مودودی تعلیم اتورن ملت مسلمہ فکر کرو عورت مرد کے ما بین اختلاف ہو ہی جاتا ہے غصہ میں آکر زبانی یا تحریر ی طور پر طلاق طلاق طلاق کہہ دینے سے وہ مکمل جدا۔ پھر حلالہ ۔یعنی کسی اور سے شادی اور جماع ۔لاحول و لاقوة الا باللّٰہ تو کوئی کسی کو پکڑ لیتاہے ڈرا دھمکا کر طلاق لے لیتا ہے تو عورت جدا ۔اور پھر حلالہ۔ یہ قول خلاف عقل ہے ۔ خلاف فرمان رسول ہے ۔ خدا ہمیں ان مفاسد سے بچا ئے طلاق ۔وقت گزرنے کے بعد نکاح طلاق اول طلاق ۔وقت گزرنے کے بعد نکاح طلاق دوم طلاق ۔وقت گرنے کے بعد نکاح طلاق سوم اب پھر اجازت نہیں۔اب کہ حلالہ ہو گا لیکن کیا کبھی اس کی نوبت آسکتی ہے ہم نے تو تاریخ میں اس طرح کا واقعہ نہ پڑھا نہ دیکھا لہٰذا اس قول سے انسان حلالہ سے مستقلًا چھٹکارا پا لیتا ہے بلکہ اللہ کی طرف سے بہت بڑی دھمکی ہے کہ اگر سلسلہ طلاق کا اس طرح جا رہا اور تیسری دفعہ پھر طلاق دی تو پھر تیری بیوی کو کسی اور مرد سے مجامعت کرنا ہوگی تب توشادی کر سکے گا ۔ کیایہ تیری غیرت کو قبول ہے؟ انسان کہے گا ہر گز نہیں! لہٰذا طلاق کا اس طرح کا سلسلہ ہی نہیں ہو گا ۔

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

خطبه غدیر سے حضرت علی علیه السلام کی امامت پر ...
فخرمریم سلام اللہ علیہا
روزہ داروں کا انعام
شخصیت علی (ع) پر امت اسلامی کا بے مثال اجماع
امام جعفر صادق (ع) اور مسئلہ خلافت (2)
اسلام اور مغرب کی نظر میں دہشت گردی
اسلام کی انسان دوستی . عبادت کاحْسن خدمتِ خلق
ربیع الاول کا مہینہ، محبتِ رسول اور اِصلاحِ ...
خطبئہ زینب سلام اللہ علیہا
اھل سنت کے نزدیک توسل(پہلا حصہ)

 
user comment