اردو
Friday 29th of March 2024
0
نفر 0

۔دین کے پیشواؤں کے کلمات میں کمال کا دارومدار عقل علم اور ایمان پر ھے۔ اور ان میں سے ھر ایک کے لئے، امام زین العابدین(ع) سے منقول روایت کا اقتباس کافی ھے، جس کا مضمون تقریباًکچھ یوں ھے

۳۔دین کے پیشواؤں کے کلمات میں کمال کا دارومدار عقل علم اور ایمان پر ھے۔ اور ان میں  سے ھر ایک کے لئے، امام زین العابدین(ع) سے منقول روایت کا اقتباس کافی ھے، جس کا  مضمون تقریباًکچھ یوں ھے:

اگر کسی شخص کو دیکھو جو اپنی سیرت و منطق کے ذریعے خوف،  عبادت و زھد اور اپنے کردار میں خضوع و فروتنی کا اظھار کرتا ھے، جلد بازی نہ کرو، اس کے چکر میں نہ آؤ، کتنے ھی افراد ایسے ھیں جو دنیا کی دسترسی سے عاجز ھیں، دین کو دلوں کے شکار کا وسیلہ بناتے ھیں، لیکن اگر ان کے لئے حرام ممکن هو تو اس میں ڈوب جاتے ھیں۔

اور اگر دیکھو کہ حرام سے بھی پرھیز کرتے ھیں، پھر بھی دھوکہ نہ کھانا، افراد کی شهوت و هوس مختلف ھے، کتنے ھی افراد ایسے ھیں جو مال حرام سے دور بھاگتے ھیں چاھے کتنا ھی زیادہ هو، لیکن شهوت کے مقابلے میں اپنا دامن آلودہ کرلیتے ھیں، اور اگر دیکھو کہ اس سے بھی اپنا دامن آلودہ نھیں کرتے تب بھی دھوکہ نہ کھانا جب تک یہ نہ  دیکھ لو کہ اس کی عقل کیسی ھے؟ کیونکہ کتنے ھی افراد ایسے ھیں جو ان سب کو ترک کرتے ھیں لیکن عقلِ متین کی طرف رجوع نھیں کرتے اور عقل کو بروئے کار لاکر ترقی و  اصلاح کرنے سے کھیں زیادہ اپنے جھل کے ذریعہ تباھی پھیلاتے ھیں،اگر اس کی عقل کو متین پاؤ پھر بھی دھوکہ نہ کھانا بلکہ عقل و هوائے نفس کے درمیان مقابلے کے وقت دیکھو کہ آیا عقل کے برخلاف هونے کا ساتھ دیتا ھے یا هویٰ کے خلاف عقل کا ساتھ دیتا ھے، جاہ طلبی کا کتنا رسیا ھے کیونکہ لوگوں میں بہت سے افراد ایسے ھیں جو دنیا کی خاطر تارکِ دنیا ھیں۔ [60]

نتیجہ یہ هوا کہ کمال کا معیار فریب دینے والی باتیں اور متواضعانہ اعمال، مال و شکم اور دامن کی شهوت کو ترک کرنا نھیں ھے بلکہ کمال کا معیار وہ عقل ھے جو جھالت کی کدورت سے پاک هو کر صلاح و اصلاح کا مبداٴ و سرچشمہ قرار پائے اور وہ هویٰ ھے جو اللہ تعالیٰ کے احکام اور فرمان کے تابع هو کہ جسے کوئی بھی هوس حتی شهوتِ جاہ و مقام اسے فریب نہ دے سکے اور باطل کی ھمراھی میں ملنے والی عزت کو ٹھکراتے هوئے، حق کے سائے میں ملنے والی ذلت کو گلے لگائے۔

۴۔عنوان بصری جس کی زندگی کے چورانویں سال گذر چکے تھے اور سالھا سال سے مالکی مذھب کے امام،  مالک ابن انس، کے پاس تحصیل علم کے لئے جس کی آمد ورفت تھی۔ چھٹے امام(ع) کے مدینہ تشریف لانے پر اس نے آپ سے کسبِ علم کی درخواست کی، حضرت امام صادق(ع) نے فرمایا:”میں ایک مطلوب فرد هوں، کہ میری طلب میں ھیں، اور اس کے باوجود رات و دن کی ھر گھڑی میں اوراد و  اذکار میں مشغول هوں“۔

یہ جواب سن کر عنوان نھایت غمگین هوا، رسول خدا(ص) کے روضہ اقدس پر حاضری دی ا ور دو رکعت نماز پڑھ کر امام(ع) کے قلب کو اپنی طرف معطوف کرنے اور آپ کے علم سے بھرہ مند هو کر خدا کی راہ مستقیم کی جانب ھدایت کے لئے دعا کی اور اسی غمگین حالت میں گھر لوٹ آیا۔ دل آپ(ع) کی محبت میں اسیر تھا، تحصیل علم کے لئے مالک کے پاس جانا بھی چھوڑ دیا اور واجب نماز ادا کرنے کے علاوہ گھر سے باھر نہ آتا تھا۔

جب صبر کا پیمانہ لبریز هوا تو ایک دن نماز عصر کے بعد آپ(ع) کے دروازے پر آیا، خادم نے پوچھا: تمھاری حاجت کیا ھے؟

جواب دیا: میری حاجت شریف کی خدمت میں سلام کرنا ھے۔

خادم نے کھا: اپنے مصلّے پر عبادت میں مشغول ھیں۔

عنوان چوکھٹ پر بیٹھ گیا، خادم نے باھر آکر کھا: برکت خدا کی خدمت میں حاضر هو۔

عنوان کہتا ھے: داخل هو کر میں نے سلام کیا۔ آپ  (ع)نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا: بیٹھ جاؤ، خدا تمھاری بخشش فرمائے۔ کچھ دیر تک آپ سر جھکائے بیٹھے رھے، اس کے بعد سراٹھا کر میری کنیت کے بارے میں پوچھا اور دعا دی۔

میں نے خود سے کھا: اس سلام و زیارت سے اگر اس دعا کے علاوہ کوئی دوسری چیز میرے نصیب میں نہ هو تو یھی دعا بہت ھے۔

اس کے بعد سر اٹھا کر فرمایا: کیا چاہتے هو؟

میں نے کھا: خدا سے التجا کی ھے کہ آپ کے دل کو میری طرف متوجہ اور آپ کے علم سے مجھے بھی کچھ نصیب کرے، امیدوار هوں میری دعا قبول هوچکی هو۔

آپ  (ع)نے فرمایا: اے اباعبداللہ! علم تعلم سے نھیں، علم ایسا نور ھے کہ خدا جس کی ھدایت چاہتا ھے اس کے دل میں قرار دے دیتا ھے، پس اگر تمھاری مراد علم ھے تو اپنے اندر حقیقت بندگی کو طلب کرو اور علم کو اس کے استعمال و عمل کے ذریعے طلب کرو اور خدا سے فھم مانگو  تاکہ تمھیں سمجھائے۔

میں نے کھا: حقیقت بندگی کیا ھے؟

آپ نے فرمایا: تین چیزیں ھیں:

یہ کہ خدا کا بندہ، جو کچھ اسے خدا نے عطا کیا ھے، خود کو اس کا مالک نہ سمجھے، کیونکہ بندگان خدا کسی چیز کے مالک نھیں هوتے، مال کو خدا کا مال سمجھتے ھیں اور جس جگہ خدا حکم دے وھاں خرچ کرتے ھیں۔

اور یہ کہ بندہ اپنے لئے کوئی تدبیر نہ کرے۔

اور یہ کہ وہ صرف اس بات میں مصروف هو کہ خدا نے اسے کس چیز کا حکم دیا ھے اور کن امور سے روکا ھے۔

پس جب خود کو کسی مال کا مالک نہ سمجھے گا تو خدا نے جھاں جھاں مال کے انفاق کا حکم دیا ھے اس کے لئے انفاق آسان هو جائے گا، جب اپنی تدبیر اپنے مدبّر کو سونپ دے گا تو مصائبِ دنیا اس پر آسان هوجائیںگے  اور خدا کے امر و نھی میں مصروف عمل هونے سے اسے لوگوں کے ساتھ فخر و مباھات اور ریاکارانہ بحث کی فرصت نہ ملے گی۔ پس جب خدا نے اپنے بندے کا ان تین صفات کی وجہ سے اکرام و احترام کردیا تو دنیا شیطان اور خلق اس کے لئے سھل و آسان هو جائیں گے، مال و دولت کو جمع آوری اور فخر فروشی کے لئے طلب نھیں کرے گا اور جو کچھ لوگوں کے پاس ھے اسے اپنی عزت و برتری کے لئے نھیں چاھے گا اور اپنی زندگی کے ایّام لغوو بے کار باتوں میں نھیں گنوائے گا۔

یہ تقویٰ کا پھلا درجہ ھے، کہ خداوندتبارک و تعالیٰ نے فرمایا:<تِلْکَ الدَّارُ الْآخِرَةُ نَجْعَلُھَا لِلَّذِیْنَ لاَ یُرِیْدُوْنَ عُلُوًّا فِی الْاٴَرْضِ وَلاَ فَسَاداً> [61]

میں نے کھا: اے ابا عبداللہ !مجھے وصیت فرمائیں۔

امام   (ع)نے فرمایا: تمھیں نو چیزوں کے بارے میں وصیت کرتا هوں اور جن کا مقصود و مطلوب راہ خدا ھے، ان کے لئے بھی میری یھی وصیت ھے، خدا تمھیں ان پر عمل پیرا هونے میں کامیاب فرمائے۔

تین وصیتیں ریاضت نفس، تین وصیتیں حلم اور تین وصیتیں علم کے بارے میں ھیں۔ ریاضت کے بارے میں میری وصیت یہ ھے کہ: اس چیز کے کھانے سے پرھیز کرو جسے کھانے کی طلب نہ هو کہ یہ کم عقلی و نادانی کا سبب ھے۔ جب تک بھوک نہ هو نہ کھاؤ۔ جب بھی کھاؤ، حلال کھاؤ، خدا کے نام سے شروع کرو اور پیغمبر اکرم(ص) کی حدیث یاد رکھو کہ آپ(ص) نے فرمایا: انسان نے اپنے شکم سے بدترظرف کو پُر نھیں کیا، پس اگر ناچار هو تو اس کی ایک تھائی کو کھانے، ایک تھائی کو پینے اور ایک تھائی کو سانس لینے کے لئے خالی رکھے۔

حلم کے بارے میں میری وصیت یہ ھے کہ: جو کوئی تم سے کھے: اگر ایک کھی تو دس سنوگے، اس کے جواب میں کهو: اگر دس بھی کهو تو ایک نہ سنو گے۔ جو تمھیں ناروا باتیں کھے اس کے جواب میں کهو: جو کچھ تم نے کھا اگر اس میں سچے هو میری خدا سے التجا ھے کہ مجھے بخش دے اور اگر جھوٹے هو تو خدا سے تمھاری بخشش چاہتا هوں اور جو تمھیں نازیبا و رکیک کھنے کا وعدہ دے تم اسے نصیحت کا وعدہ دو۔

اور علم کے بارے میں میری وصیت یہ ھے کہ: جو کچھ نھیں جانتے صاحبان عقل سے پوچھو، لیکن ان کو آزمانے یا شرمسار کرنے کی غرض سے کبھی ان سے نہ پوچھنا، جس چیز کو نھیں جانتے اس کے بارے میں اپنی ذاتی رائے اور گمان پر ھرگز عمل نہ کرنا،جھاں تک ممکن هو احتیاط پر عمل کرو، فتویٰ دینے سے اس طرح پرھیز کرو جیسے شیر سے دور بھاگتے هو اور اپنی گردن کو لوگوں کے گزرنے کے لئے پل قرار نہ دو۔

اٹھ کھڑے هو کہ تمھیں وصیت کرچکا اور میرے وِرد کو میرے لئے فاسد قرار نہ دو کہ میں اپنے آپ میںمشغول هوں <وَالسَّلاَمُ عَلیٰ مَنِ اتَّبَعَ الْھُدیٰ> [62]

اس مختصر مقدمے میں ان آیات و روایات کی تشریح بیان کرنا ناممکن ھے۔ ان آیات میں سے ھر آیت اور روایات کے ھر جملے کو سمجھنے کے لئے مفصل بحث کی ضرورت ھے،  لہٰذا جو کچھ بیان کیا گیا اسی پر اکتفا کرتے ھیں۔

آخر میں دو نکات کی جانب توجہ ضروری ھے۔

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

عقیدہ ختم نبوت
ماہ رمضان کی آمد پر رسول خدا (ص) کا خطبہ
جن اور اجنہ کے بارےمیں معلومات (قسط-1)
حکومت خدا کا ظھور اور اسباب و حسب و نسب کا خاتمہ
شیعہ:لغت اور قرآن میں
خدا کی راہ میں خرچ کرنا
جبر و اختیار
"حی علیٰ خیر العمل " كے جزء اذان ھونے كے سلسلہ میں ...
کیا نذر کرنے سے تقدیر بدل سکتی ہے؟
آخرت میں اندھے پن کے کیا معنی هیں؟

 
user comment