اردو
Tuesday 23rd of April 2024
0
نفر 0

فروع دین

فروع دین

اس مقدمے میں فروع دین کے اسرار اور حکمتوں کو بیان کرنے کی گنجائش نھیں، اس لئے کہ فروع دین، انسان کے ذاتی اور اجتماعی احوال سے مربوط قوانین اور خالق و مخلوق کے ساتھ، اس کے رابطے کا نام ھے، کہ اس سے متعلق فقہ کا ایک حصہ اڑتالیس ابواب پر مشتمل ھے، لیکن اس مجموعے میں سے ھم نماز و زکات کی حکمت کو مختصر طور پر بیان کرتے ھیں:

الف۔ نماز

 نماز چند اجزا، شرائط اور موانع پر مشتمل ھے۔ ان میں سے بعض کی حکمت ذکر کرتے ھیں:

نماز ادا کرنے کی جگہ مباح هونے کی شرط انسان کو متوجہ کرتی ھے کہ کسی کے حق سے تجاوز نہ کرے اور نماز میں خبث و حدث سے پاکیزہ هونے کی شرط اسے اس بات کی طرف متوجہ کرتی ھے کہ پانی سے دھل جانے والی نجاست یا مثال کے طور پر روح کے آئینے میں بے اختیار جنابت سے پیدا هونے والی کدورت، نماز کے باطل هونے کا سبب اور ذوالجلال و الاکرام کی بارگاہ میں جانے سے مانع ھے، لہٰذا جھوٹ، خیانت، ظلم، جنایت اور اخلاق رذیلہ جیسے قبیح اعمال، انسان کو حقیقتِ نماز سے محروم کرنے میں، جو مومن کی معراج ھے، کتنی تاٴثیر رکھتے هوں گے۔

اذان، جو خدا کے حضور حاضر هونے کا اعلان ھے اور اقامت جو مقام قرب کی طرف روح کی پرواز کے لئے ایک مقدماتی عمل ھے، معارفِ دین کا خلاصہ ھیں۔

اسلام کی تعلیم و تربیت بیان کرنے کے لئے فقط اذان و اقامت میں یہ تاٴمل اور تفکر ھی کافی ھے کہ ان دونوں میں تکبیر سے ابتداء اور تھلیل پر اختتام هوتا ھے اور چونکہ تکبیر کی ابتداء اور تھلیل کی انتھا ((اللّٰہ)) ھے، لہٰذا اس مکتب نماز سے نماز گذار یہ سیکھتا ھے کہ<ھُوَاْلاٴَوَّلُ وَاْلآخِرُ>[1]

اذان و اقامت کی ابتداء و انتھاء میں لفظ ((اللّٰہ)) کا هونا، بچے کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت اورمحتضر کے لئے کلمہٴ توحید کی تلقین کا مستحب هونا، اس بات کا اعلان ھے کہ انسان کی زندگی کی ابتداء و انتھاء خدا کے نام پر هونا چاھیے۔

تکبیر کے بعد ((لاإلہ إلا اللّٰہ)) کی دو بار گواھی دیئے جانے کے بعد آخر میں اس جملے کو تکرار کرنا انسان کے علمی و عملی کمال میں اس کلمہ طیبّہ کے کردار کی وضاحت کرتا ھے۔

لفظ و معنی کے اعتبار سے اس جملے میں یہ خصوصیات موجود ھیں:

اس جملے کے حروف بھی وھی کلمہ ((اللّٰہ))  والے حروف ھیں اور چونکہ اظھار کئے بغیر اسے زبان سے ادا کیا جاسکتا ھے،  لہٰذا  اس میں ریاکاری کی کوئی گنجائش نھیں ھے۔

نفی و اثبات پر مشتمل ھے، لہٰذا اس پر راسخ اعتقاد انسان کو اعتقادات، اخلاق اور اعمال میں باطل کی نفی اور اثباتِ حق تک پھنچاتا ھے اور حدیث سلسلة الذھب کے معانی آشکار و واضح هوتے ھیں کہ ((کلمة لاإلہ إلا اللّٰہ حصنی فمن دخل حصنی اٴمن من عذابی))[2]

اور بشریت، رسول اکرم(ص) کے بیان کی گھرائی کو درک کرسکتی ھے کہ آپ(ص) نے فرمایا:  ((قولوا لاإلہ إلا اللّٰہ تفلحوا))[3] اور یھی منفی و مثبت ھیں جو انسان کی جان کو مرکز ِوجود کے جوھر سے متصل کر کے فلاح و رستگاری کے نور سے منور کرتے ھیں۔

 ((لاإلہ إلا اللّٰہ)) میں تدّبر کے وسیلے سے، روحِ نماز گزار میں پاکیزگی آنے پر وہ اس مقام تک رسائی حاصل کرلیتا ھے کہ کھے :ِٕنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَالسَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرَضَ حَنِیْفاً وَّ مَا اٴَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ>[4] اور فاطر السماوات والارض کی طرف توجہ کے ذریعے زمین و آسمان سے گذر کر، سات تکبیروں کی مدد سے سات حجابوں سے بھی گذر جاتا ھے اور ھاتھوں کو کانوں تک بلند کر کے خدا کے سوا باقی سب کو پیٹھ پیچھے ڈال دیتا ھے۔ اس کی ھر حدّو وصف سے کبریائی کا اعلان کر کے اس کی عظمت کے سامنے سے اوھام و افکار کے پردے ہٹا دیتا ھے ((اللّٰہ اٴکبر من اٴن یوصف)) اور خدا سے کلام کے لئے تیار هو جاتا ھے، کیونکہ نماز، خدا کے ساتھ انسان کی گفتگو ھے اور قرآن، انسان کے ساتھ خدا کی گفتگو ھے۔ لیکن خدا کے ساتھ انسان کی گفتگو کلام خدا ھی سے شروع هوتی ھے، اس لئے کہ انسان نے غیر خدا سے جو کچھ سیکھا ھے اس کے ذریعے خدا کی حمد و تعریف ممکن ھی نھیں ھے اور کلام خدا کی عزت و حرمت کی بدولت اس کی گفتگو سنے جانے کے قابل هوتی ھے ((سمع اللّٰہ لمن حمدہ))۔

((لا صلاة لہ إلّا اٴن یقراٴ بھا))[5] کے تقاضے کے مطابق نماز کا حمد پر مشتمل هونا ضروری ھے اور جس طرح قرآن جو خالق کی مخلوق کے ساتھ گفتگو ھے، سورہ حمد سے شروع هوا ھے، نماز بھی چونکہ مخلوق کی خالق کے ساتھ گفتگو ھے، سورہ حمد سے شروع هوتی ھے۔

نماز گزار کے لئے ضروری ھے کہ وہ حمد و سورہ کو کلام خدا کی قرائت کی نیت سے پڑھے لیکن روحِ نماز، نماز کے اقوال و افعال میں موجود معانی، اشارات اور لطیف نکات کی طرف توجہ دینے سے حاصل هوتی ھے،  لہٰذا ھم سورہ حمد کی بعض خصوصیات کی طرف اشارہ کرتے ھیں:

 اس سورہ مبارکہ میں مبداٴ و معاد کی معرفت، اسماء و صفات خداوندمتعال، خدا کا انسان اور انسان کا خدا سے عھد اور بعض روایات[6] کے مطابق اس سورے میں اللہ کے اسم اعظم کو اجزاء میں تقسیم کرکے سمو دیا گیا ھے۔ اس سورہ مبارکہ کا ایک امتیاز یہ بھی ھے کہ اس کا نصف یعنی <مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ> تک خدا کے لئے اور بقیہ حصہ یعنی <اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ> سے آخر تک انسان کے لئے اور درمیانی آیت خدا و عبد کے درمیان اس طرح تقسیم هوئی ھے کہ عبادت خدا کے لئے اور استعانت انسان کے لئے ھے۔

سورے کی ابتداء((بِسْمِ اللّٰہِ)) سے ھے کہ صبحِ رسالت بھی اسی سے طلوع هوئی تھی <اِقْرَءْ بِاسْمِ رَبَِّکَ> [7]

اسم اللہ کی خصوصیت یہ ھے کہ یہ وہ اسمِ ذات ھے جس میں تمام اسماء حسنیٰ جمع ھیں <وَلِلّٰہِ الْاٴَسْمَاءُ الْحُسْنیٰ فَادْعُوْہُ بِھَا>[8]

اور اس سے مراد ایسا معبود ھے جس کے بارے میں مخلوق متحیّر اور اس کی پناہ چاہتے ھیں ((عن علی (ع): اللّٰہ معناہ المعبود الذی یاٴلہ فیہ الخلق و یولہ إلیہ))[9] اور خدا کی نسبت انسان کے لئے جو کمال معرفت ممکن ھے وہ یہ ھے کہ اس کی معرفت کو نہ پاسکنے کا ادراک رکھتا هو۔

((اللّٰہ)) کی صفات ((رحمٰن و رحیم)) بیان کی گئی ھیں اس کی رحمتِ رحمانیّہ و رحیمیّہ کی شرح اس مقدمے میں بیان کرنا ناممکن ھے۔ بس فقط یہ بات مورد توجہ رھے کہ خداوندمتعال نے انسان سے اپنے کلام اور اپنے ساتھ انسان کے کلام کو <بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ> سے شروع فرمایا، اس آسمانی جملے کو مسلمانوں کے قول وفعل کا سرچشمہ قرار دیا اور پانچ واجب نمازوں میں صبح و شام اس جملے کو تکرار کرنے کا حکم فرمایا ھے اور انسان کو یہ تعلیم دی کہ نظام آفرنیش کا دارومدار رحمت پر ھے اور کتاب تکوین و تشریع رحمت سے شروع هوتی ھے۔

اس کی رحمتِ رحمانیّہ کی بارش ھر مومن و کافر اور متقی و فاجر پر هوتی ھے۔ جس طرح اس کی رحمت رحیمیہ کی شعاع سے ھر پاک دل روشن هوتا ھے <کَتَبَ رَبُّکُمْ عَلیٰ نَفْسِہِ الرَّحْمَةَ>[10]

دین خدا، دین رحمت اور اس کا رسول <رَحْمَةً لِّلْعَالَمِیْنَ>[11] ھے اور دین میں موجود حدود و تعزیرات بھی رحمت ھیں۔ یہ مطلب مراتبِ امر بہ معروف و نھی از منکر کے ذریعے واضح هو جاتا ھے کہ اگر پیکر ِاجتماع کا ایک عضو، فرد و معاشرے کی مصلحت کے برخلاف عمل کرے یا فردی و نوعی فساد کا مرتکب هو، تو سب سے پھلے ملائمت و نرمی کے ساتھ اس کے علاج کی کوشش کرنا ضروری ھے، جیسا کہ حضرت موسیٰ بن عمران   (ع)، نو معجزات کے هوتے هوئے جب فرعون جیسے طاغوت کے زمانے میں مبعوث هوئے تو خداوندمتعال نے آپ اور آپ کے بھائی ھارون کو حکم دیا کہ اس کے ساتھ نرمی سے پیش آئیں کیونکہ بعثت کا مقصد تسلّط و قدرت نھیں بلکہ تذکر، خشیت اور ھدایت ھے <فَقُوْلَا لَہ قَوْلًالَیِّنًا لَّعَلَّہ یَتَذَکَّرُاٴَوْ یَخْشٰی> [12] اور جب تک طبابت کے ذریعے علاج ممکن هو اس عضو کو نشتر نھیں لگانا چاھیے اور اگر دوا سے علاج ممکن نہ هو تو معاشرے کے جسمانی نظام میں خلل ڈالنے والے فاسدمادے کو نشتر کے ذریعے نکال دینا چاہئے اورجھاں تک ممکن هو اس عضو کی حفاظت ضروری ھے اور اگر نشتر کے ذریعے بھی اس کی اصلاح نہ هو تو معاشرے کی سلامتی کے لئے اسے پیکر اجتماع سے جدا کردینا ضروری ھے۔

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

خدا کی معرفت اور پہچان
بندوں کی خدا سے محبت
خدا شناسی کے راستے
قرآن کی علمی اور عملی تربیت
گناہان صغیرہ
دین اسلام کی چوتهی اصل امامت
بعثت کا فلسفہ، امام خمینی(رہ) اور رہبر انقلاب ...
خالق اور مخلوق کے درمیان رابطہ
اہل تشیع کے اصول عقائد
قرآن کے بارے میں شیعوں کا عقیدہ

 
user comment