اردو
Thursday 28th of March 2024
0
نفر 0

اس نے پوچھا :خدا کب سے ھے ؟

اس نے پوچھا :خدا کب سے ھے ؟

امام (ع) نے فرمایا : تم یہ بتاوٴ کہ کب نہ تھا؟ (خداوندِ متعال جو زمان وزمانیات اور مجردات ومادیات کے لئے قیوم ھے، اس کی ذات اقدس عدم، نابودی اور زمان ومکان سے مبراھے)

پھر اس نے امام (ع) سے پوچھا : پس اس کے وجودکی دلیل کیا ھے ؟

امام (ع) نے آفاق و انفس میں موجود آیاتِ خد ا کی ھدایت کی اور جسم کی بناوٹ میں تفکروتدبر کے ذریعے اس نکتے کی طرف توجہ دلائی کہ اپنے وجود کی اس بناوٹ میں جن باریک نکات اور لطا ئف ِحکمت کا خیال رکھا گیا ھے، ان کے ذریعے اس خالق کے علم وحکمت کا اندازہ لگائے۔ اسے بادلوں، هوا، سورج،چاند اور ستاروں کی حرکت میں غوروفکر کرنے کو کھا تاکہ اجرام فلکی میں موجود عجائب ِقدرت وغرائب ِحکمت میں تفکر وتدبر کے ذریعے عزیز و علیم کی قدرت تک پھنچ سکے اور متحرکات آسمانی کی حرکت کے ذریعے تغیر وحرکت سے منزہ محرّک پر ایمان لے آئے۔[36]

ج): مادّے و طبیعت میں موجود تغیر وتحول، اس مادّے وطبیعت سے برتر قدرت کی دلیل ھیں،کیونکہ مادّہ یا اس سے منسوب کسی بھی مادّی شے میں تاثیر،وضع ومحاذات کی محتاج ھے۔مثال کے طور پر آگ جو حرارت ِجسم میں تاثیر رکھتی ھے یا چراغ جس کی شعاع فضا کوروشن ومنور کرتی ھے، جب تک آگ یا چراغ کی اس جسم یا فضا کے ساتھ خاص نسبت پیدا نہ هو، ممکن ھی نھیں ھے کہ جسم ا س آگ کی حرارت سے گرم یا فضا اس چراغ کے نور سے روشن و منور هوجائے، اورچونکہ معدوم کے ساتھ وضع اورنسبت کا برقرار هونا محال ھے، لہٰذ ا ایسے موجودات جو پھلے مادہ و طبیعت میں نہ تھے اور بعد میں وجودپایا یا پائےں گے، ان موجودات میں مادہ وطبیعت کی تاثیر ممکن نھیں ھے۔آسمان و زمین میں موجود هونے والا ھر معدوم ایسی قدرت کے وجود کی دلیل ھے جس کو تاثیر کے لئے وضع ومحاذات کی ضرورت نھیں ھے اوروہ ماورائے جسم وجسمانیات ھےِٕنَّمَا اٴَمْرُہ إِذَا اٴَرَادَ شَیْاٴً اٴَنْ یَّقُوْ لَ لَہ کُنْ فَیَکُوْنُ>[37]

د):خدا پر ایمان انسان کی سرشت میں موجود ھے، کیونکہ فطری اعتبار سے انسان اپنے آپ کو ایک مرکز سے وابستہ اور محتاج پاتا ھے، لیکن اسبابِ معیشت کی مصروفیت اور خواھشات نفسانی سے لگاؤ اس وابستگی کے مرکز کو پانے میں رکاوٹ ھیں۔

جب بے چارگی اور ناامیدی اسے چاروں طرف سے گھیر لیتی ھے اور فکر کے تمام چراغوں کو بجھا هو ا اور تمام صاحبان قدرت کو عاجز پاتا ھے، اس کا سویا هوا ضمیر جاگ اٹھتا ھے اور جس غنی بالذات پر فطرتاً بھروسا کئے هوئے ھے، اس سے بے اختیار مدد طلب کرتا ھے<قُلْ مَنْ یُّنَجِّیْکُمْ مِنْ ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ تَدْعُوْنَہ تَضَرُّعاً وَّ خُفْیَةً لَّئِنْ اٴَنْجَاْنَا مِنْ ھٰذِہ لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الشَّاکِرِیْنَ>[38] <وَ إِذَا مَسَّ اْلإِنْسَانَ ضُرٌّ دَعَا رَبَّہ مُنِیْبًا إِلَیْہِ ثُمَّ إِذَا خَوَّلَہ نِعْمَةً مِّنْہُ نَسِيَ مَا کَانَ یَدْعُوْا إِلَیْہِ مِنْ قَبْلُ وَ جَعَلَ لِلّٰہِ اٴَنْدَادًا لِّیُضِلَّ عَنْ سَبِیْلِہ>[39] <ھُوَ الَّذِی   یُسَیِّرُکُمْ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ حَتّٰی إِذَا کُنْتُمْ فِی الْفُلْکِ وَ جَرَیْنَ بِہِمْ بِرِیْحٍ طَیِّبَةٍ وَّ فَرِحُوْا بِہَا جَائَتْہَا رِیْحٌ عَاصِفٌ وَّ جَائَہُمُ الْمَوْجُ مِنْ کُلِّ مَکَانٍ وَّ ظَنُّوا اٴَنَّہُمْ اٴُحِیْطَ بِہِمْ دَعَوُا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِِّیْنَ لَئِنْ اٴَنْجَیْتَنَا مِنْ ہٰذِہ لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الشّٰکِرِیْنَ>[40]

ایک شخص نے امام صادق   (ع) سے عرض کی : ((یا ابن رسول اللّٰہ! دلّنی علی اللّٰہ ما هو، فقد اٴکثر علیّ المجادلون و حیرونی۔ فقال لہ: یا عبد اللّٰہ ، ھل رکبت سفینة قط؟ قال: نعم۔ قال: فھل کسر بک حیث لا سفینة تنجیک و لا سباحة تغنیک؟ قال: نعم، قال: فھل تعلق قلبک ھنالک اٴن شیئاً من الاٴشیاء قادر علی اٴن یخلصک من ورطتک؟ قال: نعم، قال الصَّادق (ع): فذلک الشیٴ ھو اللّٰہ القادر علی الإنجاء حیث لا منجي وعلی الإغاثة حیث لا مغیث))[41]

جیسا کہ بے چارگی کے عالم میں دوسروں سے انقطاع ِمطلق کے دوران خداوندِ متعال کی یہ معرفت اور فطری ارتباط حاصل هو جاتا ھے، اختیاری حالت میں بھی اسے علم وعمل جیسے دو پروں کے ذریعے پرواز کر کے حاصل کیا جاسکتا ھے:

حضرت فرماتے ھیں:کیا کبھی کشتی پر سوار هوئے هو؟کہتا ھے :ھاں حضرت فرماتے ھیں :کیا کبھی ایسا بھی هوا ھے کہ کشتی ٹوٹ گئی هو اور وھاں پر کوئی اور کشتی نہ جس پر سوار هو جاوٴ اور نجات مل جائے اور نہ تیرنا آتا هو جس سے تم نجات پاجاوٴ جوا ب دیتا ھے :ھاں حضرت نے فرمایا:  ایسے حال میں تمھارے دل میں کسی قادر توانا کا خیال آیا جو تم کو ابھی بھی نجات دلا سکتا ھے؟کہتا ھے :ھاں حضرت نے فرمایا:بس وھی خدا ھے جو ایسے حالات میں بھی تم کو نجات دے سکتا ھے جب کوئی تمھاری مدد نہ کرسکے۔

اول)یہ کہ نور عقل کے ذریعے انسان، جھالت وغفلت کے پردوں کو پاراکرے اور دیکھے کہ موجودات کا وجود اور ان کے کمالات ذاتی نھیں، بلکہ سب کے سب ذات قدوس کی جانب منتھی هوتے ھیں <ھُوَ اْلاٴَوَّلُ وَاْلآخِرُ وَالظَّاھِرُ وَالْبَاطِنُ وَھُوَ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ>[42] <ھُوَ اللّٰہُ الْخَالِقُ الْبَارِیٴُ الْمُصَوِّرُ لَہ اْلاٴَسْمَاءُ الْحُسْنٰی>[43]

 دوم)یہ کہ طھارت وتقویٰ کے ذریعے آلودگی او ر رذایل نفسانی کی کدورت کو گوھرِوجود سے دور کرے، کیونکہ   خدا اور اس کے بندے کے درمیان جھالت وغفلت اور کدورت ِ گناہ کے علاوہ کوئی دوسرا پر دہ نھیں ھے کہ جسے علمی وعملی جھاد کے ذریعے پارا کرنا ضروری ھے<وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا>[44]

چھٹے امام   (ع) نے ابن ابی العوجا ء سے فرمایا : 

((ویلک وکیف احتجب عنک من اٴراک قدرتہ في نفسک؟ نشؤک ولم تکن و کبرک بعد صغرک و قوتک بعد ضعفک و ضعفک بعد قوتک و سقمک بعد صحتک و صحتک بعد سقمک و رضاک بعد غضبک و غضبک بعد رضاک و حزنک بعد فرحک، و فرحک بعد حزنک و حبک بعد بغضک و بغضک بعد حبک و عزمک بعد إبائک و إباوٴک بعد عزمک و شہوتک بعد کراہتک وکراہتک بعد شہوتک و رغبتک بعد رھبتک و رھبتک بعد رغبتک ورجائک بعد یاٴسک و یاٴسک بعد رجائک و خاطرک بما لم یکن فی وھمک و عزوب ما اٴنت معتقدہ عن ذھنک  و مازال یعد علی قدرتہ التی فی نفسی التی لا اٴدفعھا حتی ظننت اٴنہ سیظھر فیما بیني وبینہ))[45]

توحید

توحید سے مراد ایسے خداوند عالم پر اعتقاد ھے جو یکتا ھے اور اجزاء وصفات کی ترکیب سے مبرا ھے، اس لئے کہ ھر مرکب، وجود کو اجزاء اور ان اجزاء کو ترکیب دینے والے کا محتاج ھے اور محال ھے کہ جو محتاج هو وہ اپنے آپ یا کسی غیر کو وجود عطا کرسکے۔ خداوندمتعال کی ذات وصفات میں اس کا کوئی شریک نھیں ھے۔[46]

اس سے متعلق بعض دلائل کی طرف اشارہ کرتے ھیں :

۱۔تعدد الٰہ سے خداوند متعال میں اشتراک ضروری قرار پاتا ھے اس لئے کہ دونوں خدا ھیں، اور اسی طرح دونوں میں نقطہٴ امتیاز کی ضرورت پیش آتی ھے تاکہ دوگانگی تحقق پیدا کرے اور وہ مرکب جو بعض نکات اشتراک اور بعض نکات امتیاز سے مل کر بنا هو، ممکن ومحتاج ھے۔

۲۔تعدد الہ کا کسی نقطہٴ امتیاز کے بغیر هونا محال ھے اور امتیاز، فقدانِ کمال کا سبب ھے۔ فاقدِ کمال محتاج هوتا ھے اور سلسلہٴِ احتیاج کا ایک ایسے نکتے پر جاکر ختم هونا ضروری ھے جو ھر اعتبار سے غنی بالذات هو، ورنہ محال ھے کہ جو خود وجود کا محتاج وضرور ت مند هو کسی دوسرے کو وجود عطا کرسکے۔

۳۔خدا ایسا موجود ھے جس کے لئے کسی قسم کی کوئی حد مقرر نھیں کیونکہ ھر محدود، دو چیزوں سے مل کر بنا ھے ، ایک اس کا وجوداور دوسرے اس کے وجود کی حد اور کسی بھی وجود کی حد اس وجود میں فقدان اور اس کے منزلِ کمال تک نہ پہچنے کی دلیل ھے اور یہ ترکیب، اقسامِ ترکیب کی بد ترین قسم ھے، کیونکہ ترکیب کی باقی اقسام میں یا تو دو وجودوں کے درمیان ترکیب ھے یا بود ونمود کے درمیان ترکیب ھے، جب کہ ترکیب کی اس قسم میں بود ونبود کے درمیان ترکیب ھے!!  جب کہ خد ا کے حق میں ھر قسم کی ترکیب محال ھے۔وہ ایسا واحد وجود ھے جس کے لئے کسی ثانی کا تصور نھیں، کیونکہ ثانی کا تصور اس کے لئے محدودیت اور متناھی هونے کا حکم رکھتا ھے، لہٰذا وہ ایسا یکتاھے کہ جس کے لئے کوئی ثانی نہ قابل تحقق ھے اور نہ  ھی قابل تصور۔

۴۔ کائنات کے ھر جزء وکل میں وحدتِ نظم برقرار هونے سے وحدت ناظم ثابت هو جاتی ھے، کیونکہ جزئیاتِ انواع کائنات میں موجود تمام اجزاء کے ھر ھر جزء میںموجود نظم وترکیب اور پوری کائنات کے آپس کے ارتباط کے تفصیلی مطالعے سے یہ بات واضح هوجاتی ھے کہ جزء و کل سب ایک ھی علیم ،قدیر اورحکیم خالق کی مخلوق ھیں۔ جیسا کہ ایک درخت کے اجزاء کی ترکیب، ایک حیوان کے اعضاء و قوتوں کی ترکیب اور ان کا ایک دوسرے نیز چاند اور سورج سے ارتباط، اسی طرح منظومہٴ شمسی کا دوسرے منظومات اور کہکشاؤں سے ارتباط، ان سب کے خالق کی وحدانیت کامنہ بولتا ثبوت ھیں۔ایٹم کے مرکزی حصے اور اس کے مدار کے گردگردش کرنے والے اجزاء سے لے کر سورج و منظومہٴِ شمسی کے سیارات اور کہکشاؤں تک، سب اس بات کی علامت ھیں کہ ایٹم،سورج اور کہکشاوٴں کا خالق ایک ھی ھے <و َھُوْ الَّذِي فِي السَّمَاءِ اٴِلٰہٌ وَّ فِی اْلاٴَرْضِ إِلٰہٌ وَّ ھُوَ الْحَکِیْمُ الْعَلِیْم>[47]<یَا اٴَیُّھَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّکُمُ الَّذِي خَلَقَکُمْ وَالَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَةالَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ اْلاٴَرْضَ فِرَاشًا وَّالسَّمَاءَ بِنَاءً وَّ اٴَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَاٴَخْرَجَ بِہ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقاً لَّکُمْ فَلاَ تَجْعَلُوْا لِلّٰہِ اٴَنْدَادًا وَّ اٴَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ>[48]

۵۔چھٹے امام   (ع) سے سوال کیا گیا:  صانع وخالقِ کائنات کا ایک سے زیادہ هونا کیوں ممکن نھیں ھے ؟ آپ   (ع) نے فرمایا : اگر دعوٰی کرو کہ دو ھیں تو ان کے درمیان شگاف کا هونا ضروری ھے تاکہ دو بن سکیں، پس یہ شگاف تیسرا هوا اور اگر تین هو گئے تو پھر ان کے درمیان دو شگافوں کا هونا ضروری ھے تاکہ تین محقق هوسکیں،بس یہ تین پانچ هوجائیں گے او راس طرح عدد بے نھایت اعداد تک بڑھتا چلا جائے گا۔ نتیجہ یہ هوا کہ اگر خدا ایک سے زیادہ هوئے تو اعداد میں خداؤں کی نا متناھی تعداد کا هونا ضروری ھے۔[49]

۶۔امیر الموٴمنین   (ع) نے اپنے فرزند امام حسن   (ع) سے فرمایا:((واعلم یابنی اٴنہ لو کان لربک شریک لاٴتتک رسلہ ولراٴیت آثار ملکہ وسلطانہ ولعرفت اٴفعالہ وصفاتہ))[50]

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

عقیدہ ختم نبوت
ماہ رمضان کی آمد پر رسول خدا (ص) کا خطبہ
جن اور اجنہ کے بارےمیں معلومات (قسط-1)
حکومت خدا کا ظھور اور اسباب و حسب و نسب کا خاتمہ
شیعہ:لغت اور قرآن میں
خدا کی راہ میں خرچ کرنا
جبر و اختیار
"حی علیٰ خیر العمل " كے جزء اذان ھونے كے سلسلہ میں ...
کیا نذر کرنے سے تقدیر بدل سکتی ہے؟
آخرت میں اندھے پن کے کیا معنی هیں؟

 
user comment