اردو
Friday 19th of April 2024
0
نفر 0

اسلام اور سائنس

اسلام اور سائنس

مقدمه:

قر آن حکیم ایسا مکمل ضا بطہ حیا ت ھے کہ جس میں حیا ت انسانی کے تما م قو اعد وضو ا بط کوپنھا ں کر دیا گیا ھے اس کتا ب ھے معجز بیان میں کسی حقیقت و صدا قت کو نظر انداز نھیں کیا گیا ۔ اس کی گھرا ئیو ں میں غو طہ زن ھو نے سے اس کے اس دعویٰ کی تصدیق ھو تی ھے کہ اس کا ئنا ت کا ھر خشک و تراس میں مو جو د ھے ۔سما جی و معا شر تی مسا ئل ھو ں یا سیا سی واقتصادی الجھنیں ۔ انفرادی مسائل ھو ں یا اجتما عی قرآن حکیم ان سب کا حل اپنے دامن میں سمیٹے ھو ئے ھے اسی طر ح حیا ت و کا ئنا ت کے وہ رمو ز واسرا ر جو صد یو ں سے انسانی نا وک کا ھدف ھیں ان کے لئے مکمل ار شاد ات اسی کتا ب الھیٰ کی آ یا ت میں چھلکتے نظر آ تے ھیں ۔ یعنی اس عالم رنگ و بو میں جو تبدیلیا ں رو نما ھو تی ھیں اور جو بھی علمی و عملی تحقیق و تخلیق ظھو ر پذیر ھو تی ھے ان سب کا ذکر اس کتا ب معجز بیا ن میں مو جو د ھے اور ان حیا ت و کا ئنا ت کے حقا ئق کی مزید و ضا حت اس کتا ب کے حا مل علو م کا ئنا ت کے عالم پیغمبر اسلام کی احا دیث اور آپ کے علو م کے وارث آ ئمہ اطھا ر کے ار شادا ت میں مو جو د ھے ۔ لیکن اس کتا ب کے نزول کا مقصد و مو ضو ع چو نکہ انسانی ھدا یت یعنی و جود و حیا ت کے مقصد سے آ گا ہ کر کے مقصد حیا ت کی تکمیل کے لئے رھبر ی کر نا ھے اس لئے اس میں دوسرے مو ضو عات پر برا ہ را ست کم گفتگو کی گئی ھے ۔ یھیں سے دوسرے علوم اور قرآن کا نقطہ نظر کا فرق واضح ھو جا تا ھے کہ علو م طبعی میں بنیا د ی طور پر اسرا ر کا ئنا ت کے تجسس و تحقیق اور تسخیر کا ئنا ت کو مقصد و مر اد قرار دیا گیا ھے اور قر آن حکیم ان میں تحقیق وتجسس کو الھیٰ معر فت و بندگی کا ذریعہ قرار دیتا ھے جیسا کہ سورہ حم سجدہ میں خلاق عالم کا ارشاد ھے کہ ” عنقریب ھم ان کو اپنی نشا نیا ں آ فاق ( کا ئنا ت کی گھرا ئیو ں ) میں اور خود ان کے و جو د میں بھی دکھا ئیں گے یھا ں تک کہ ان پر وا ضح ھو جا ئے کہ یقیناً وھی ( خدا ) بر حق ھے ۔ “ اس آ یت قر آنی نے صا ف صاف قر آنی مو قف کو بیا ن کر دیا ھے کہ کا ئنا ت کی نشا نیا ں دکھا نا با لذ ات مقصود نھیں بلکہ اس سے خا لق کا ئنا ت کے و جود و عظمت اور علم و قدرت کا اظھا ر و معر فت مقصود ھے ۔ یعنی جس قدر کا ئنا ت کے رمو ز واسرار سے واقفیت و معر فت بڑھتی جا ئے گی اسی قدر کا ئنا ت کے خا لق کے علم و حکمت اور اقتدار کی معر فت بڑھتی جا ئے گی اور پھر اسی کی اطا عت و بندگی کا شوق بڑ ھتا جا ئے اور اسی بنا پر دین میں عبا دات کے اجر و ثواب کی کمی و ز یا دتی کا معیا ر معر فت الھٰی کے درجات کے لحا ظ سے قرار دیا گیا ھے جو معر فت الھٰی میں جس قدر بلند ھو گا اسی قدر اس کی طا عت و بند گی کا ثواب زیا دہ ھو گا اسی بنا پر کا ئنا ت کی اشیا ء میں غور و فکر کر نے کو افضل عبا دت قرار دیا گیا ھے اور قرآن حکیم میں سینکڑو ں مقا ما ت پر آ یا ت کا ئنا ت میں غور وفکر کر نے کی طرف تر غیب دی گئی ھے ۔

آج کی دنیا ئے علم نے علم طبیعا ت میں وزن و مقدار کو ایک خاص اھمیت دی ھے اور بتا یا ھے کہ وزن و مقدار کا خا ص تنا سب ما دہ و ما دیا ت میں کتنا دخل ھے اور کیو ں کر اس کے ذریعے ما ھیتو ں میں تبدیلی پیدا کی جا تی ھے قرآ ن حکیم نے صد یو ں پھلے وزن و مقدار کو کتنی اھمیت دی ھے اس کا اندازہ ذیل کی آ یا ت سے بخو بی ھو تا ھے ۔

( ۱)والا رض مدد نا ھا والقینا فیھا روا سی وا نبتنا فیھا من کل شی ء مو زون ۔الحجر(۱۹)

” اور ھم نے زمین کو پھیلا یا اور ھم نے اس میں بھا ری بھا ری پھا ڑ قا ئم کر دیئے اور ھم نے اس ( زمین ) میں سے ھر شے ایک خا ص تو ازن سے اگا ئی ۔

۔” وکل شی ء عند ہ بمقدار ۔“

() ” اس کے نز دیک ھر چیز کی ایک معین مقدار ھے “

وان من شیء الا عند نا خز ا ئنہ وما ننر لہ الا نقدر معلوم ۔“

() ”اور ھر چیز کے خزا نے ھما رے پا س مو جو د ھیں اور ھم اسے صر ف معلو م و معین مقدار میں نا زل کر تے رھتے ۔“ الحجر(۲۱)

() ” وا نزلنا من السما ء ما ء بقدر فا سکنا ہ فی الارض ۔“

() ” اور ھم نے آ سما ن سے پا نی کو ایک مقدار میں نا زل کیا پھر اسے زمین میں ٹھھر ائے رکھا ْ“ المو منو ن(۸)

” انا کل شنی خلقنا ہ بقدر ۔“

” ھم نے ھر شے کو ایک خا ص انداز سے پیدا کیا ھے ۔ القمر(۴۹)

اسی طرح اگر دیکھا جا ئے تو نوامیسی طبیعت کے متعلق بڑے واضح ارشاد ات پو رے قرآن میں بکثرت مو جود ھیں ۔ مثلاً آج خلائی دور میں یہ آ یت صا حبا ن فکر کے لئے کتنی جا ذب نظر ھے ۔

ولقد خلقنا فو قکم سبع طرا ئق وما کنا عن الخلق غا فلین ۔

( اور ھم نے تمھا رے اوپر سات را ھیں خلق کی ھیں اور ھم مخلو ق سے غا فل نھیں ھیں) ۔ المو منون (۱۷)

اور سورہ واقعہ کے تسلسل میں یہ آ یا ت تلا وت کر نے والے کو چو نکا دیتی ھیں

”افرایتم الما ء الذی تشر بو ن اء اء نتم انزلتمو ہ من المزن ام نحن المنز لو ن ولو نشا ء لجعلنا ہ ۔۔الخ ۔

” کیا تم نے اس پا نی کو دیکھا ھے جسے تم پیتے ھو آ یا تم نے اسے با دل سے نا زل کیا ھے یا ھم نا زل کر نے والے ھیں ۔ اگر ھم چا ھتے تو اسے کھا راکر دیتے ۔ پھر کیو ں شکر بجا نھیں لا تے “ ۔

افرا یتم النا ر التی تو رو ن اانتم انشا تم شجرتھا ام نحن اکمنشو ء ن ۔---

” کیا تم نے اس آ گ کو دیکھا ھے جسے تم رو شن کر تے ھو آ یا تم نے اسے درخت سے پیدا کیا ھے یا ھم پیدا کر نے والے ھیں ۔“

یہ ایک اجمالی تبصر ہ تھا قرآن مجید کے ارشادات پر جو علو م طبیعی اور کا ئنا ت کے اسرار اور رمو ز سے متعلق ھیں ۔ وہ خا صا ن خدا جو قرآن کے وارث بنا ئے گئے تھے انھو ں نے بھی۹ اپنے ارشادات میں ان علو م کی وضا حت کی ۔ حضرت علی (ع) کے نھج البلا غہ میں تخلیق کا ئنا ت اور اس کے حا لا ت پر بے نظیر خطبا ت مو جود ھیں جن سے خصو صیت سے علم طبقات الا رض پر بڑی روشنی پڑتی ھے ۔ اسی طرح امام جعفرصا دق (ع) کی حدیث اھلیلج نبا تا ت کے خواص اور کیمیا وی موا دات پر لا جواب معلو ما ت کا ذخیر ہ ھے ۔ اس کے علا وہ وہ حدیث مفضل بھی کہ جس میں تخلیق انسانی پر تبصرہ کر نے کے ساتھ دیگر بکثرت مو ضو عات پر بھی رو شنی ڈالی گئی ھے ۔

امام جعفر صادق (ع) کا ارشاد ھے کہ ” ھزارو ں علو م حا صل کر نے کے با و جود انسان علم سے مستغنی نھیں ھو سکتا اور اس دنیا و جھا ں کے علا وہ دوسرے جھا ن بھی کہ جھاں اس دنیا کے علو م بے وقعت ھیں اگر کو ئی یھا ں کے علوم سیکھنے کے بعد دوسرے جھا نوں میں جا ئے تو وھا ں وہ جا ھل ھو گا و ھا ں کے علو م کو نئے سر ے سے سیکھنا ھو گا “ اور پھر امام نے فر ما یا کہ ” اگر انسان کی عمر ھزار و ں سال تک ھو جا ئے اور وہ مسلسل علم کے حصو ل میں مصرو ف رھے تب بھی تما م علوم پر عبو ر حا صل نھیں کر سکتا ۔ پھر امام نے فر ما یا ھما رے اس جھا ن کے علا وہ دوسری دنیا ئیں بھی ھیں جن میں سے اکثر ھما رے اس جھان سے بھت بڑے ھیں اور ان جھاں میں ایسے علو م ھیں کہ جو اس دنیا کے علوم سے مختلف ھیں “ ۔ پھر امام نے فر ما یا کہ ” دوسری دنیا ؤ ں کی تعداد صرف خدا جا نتا ھے کیو نکہ نئی دنیا ئیں پیدا ھو تی رھتی ھیں ۔“

حضرت اما م جعفر صادق (ع) کے دور میں چو نکہ یو نا نی علو م عربی میں تر جمہ ھو نے لگے تھے اور عرب میں علم سے انسیت پیدا ھو چکی تھی اس لئے آ پ نے حالا ت کے تقا ضو ں کے اعتبا ر سے مختلف مو ضو عا ت پر اپنے ارشاد ات میں واضح ارشاد ات کے ذریعے عقل انسانی کو تحقیق و جستجو کی طرف متو جہ کیا ھے ۔ جا بر بن حیا ن کو فی آ پ ھی کے شا گر د تھے ۔ یہ بھی اسلامی علوم کی تا ریخ کا پیش پیش نظر آ تے ھیں ۔ اور اس کی وجہ بھت واضح ھے ۔ اس لئے کہ دیگر مکا تیب کا سلسلہ برا ہ راست ان لو گو ں سے نھیں ھے کہ جو اس زمین پر الھٰی علوم کے وا رث ھیں اسی بنا پر جو گ ایسے خدا ساز علما ء سے متمسک رھے انھیں ھر علم میں تقد م حا صل ھے قرآن حکیم کے تد بر و تفکر کے دیئے گئے درس و تعلیم پر عمل کر تے ھو ئے صد یو ں تک مسلما ن دنیا کی علمی قیا دت کر تے رھے اور مسلما ن محققین و مو جدین کہ جن کی قلمی میرا ث آ ج بھی دنیا ئے علم و تحقیق کا عظیم سر ما یہ ھے ۔ اس مقا م پر ضروری معلو م ھو تا ھے کہ ان کا مختصر تذکرہ کیا جا ئے ۔

بعض مسلم سا ئنسدان

جا بر بن حیا ن کو فیٌ)ولا دت ۷۲۲ ء اور وفا ت ۸۱۷ ء)

جا بر کی ولا دت طوس ( ایران ) میں ھو ئی اور وفا ت کو فے میں ھو ئی ۔ جنوبی عرب کا قبیلہ از د جو کو فے میں آ با د ھو گیا تھا ۔ جا بر اسی خا ندان کے چشم و چراغ تھے ۔ جا بر کے وا لد حیا ن کی کو فے میں دوا سازی کی دوکا ن تھی ۔ حیا ن عبا سی تحریک کی حما یت کی بنا پر بنی امیہ کے ھا تھو ں قتل ھو ئے ۔ با پ کے قتل کے وقت جا بر کا بچپنہ تھا ۔ جب جا بر کی عمر چھبیس بر س کی تھی تو بنو عبا س سلطنت پر قا بض ھو چکے تھے ۔ اس دور میں جا بر مدینے میں آ گئے اور حضرت امام جعفر صادق (ع) کی خدمت میں حاضر ھو کر عر صہ در از تک علم و معرفت کا فیض حا صل کیا ۔ اس کے بعد کو فے میں آ کر اپنی تجر بہ گا ہ قا ئم کی اور کیمیا پر عملی تحقیقا ت کیں ۔ اھل یو رپ کے ھا ں ( GiEBER) کے نا م سے مشھو ر ھیں ۔ محققین کا اتفا ق ھے کہ تجر بہ با قی کیمیا کے با نی جا بر بن حیا ن ھیں ۔ اپنے علوم کا اظھا ر کر تے وقت اس کااسنا د حضرت امام جعفر صادق (ع) کی طرف کر تے ھو ئے کھتے ھیں ۔

سید ی جعفر بن محمد ” میرے مو لا و آ قا جعفربن محمد “

آ لا ت کیمیا میں قر ع انبیق جا بر کی اھم ایجا د ھے جس سے کشید کر نے ، عرق نکا لنے کا کام لیا جا تا تھا ۔ شور ے کا تیز اب جا بر کی دریا فت ھے جا بر کیمیا کے تما م تجر باتی علوم مثلاً فلٹر کر نا ، حل کر نا ، کشید کر نا ، عمل تصعید سے اشیا ء کا جو ھر اڑا نا اور قلما ؤ کے ذریعے اشیا ء کی قلمیں بنا نا ۔ ان تمام سے واقف ھو نے کے ساتھ ان سے اکثر کا م لیتے تھے ۔ جا بر نے بتا یا کہ تمام دھا تو ںکے بنیا دی اجزاوھی ھیں جن کی مناسبت سے دو نا بنتا ھے آ ج یہ با ت واضح ھے کہ تما م عنا صر کے بنیاد ی اجزا ایٹم ھو تے ھیں اور ایٹم کے اندر الیکٹرو ں وپر و ٹو ں وغیرہ اجزا ء کے جدا جدا اتنا سب سے تمام اشیا ء کے بنیا دی اجزا ایٹم بنتے ھیں

جا بر نے اپنی کیمیا کی کتا بو ں میں فو لا د بنا نے ۔ دھا تو ں کو مصفے کر نے ، مو م جا مہ بنا نے ، چمرے کو رنگنے ، لو ھے کو زنگ سے بچا نے کے لئے اس پر وار نش کر نے با لو ں کو سیا ہ کر نے کے لئے خضا ب تیا ر کر نے ، اسی طر ح کی بیسیو ں مفید اشیا ء بنا نے کے طریقے بیا ن کئے ھیں ۔

ان کے علا وہ جا بر نے اپنی کتا بو ں میں سفیدہ (Lead carbonate )سنکھیا (Arsenic)اور کحل (Antimon) کو ان کے سلفا ئیڈ سے حا صل کر نے کے طریقے بھی و ضا حت سے بیا ن کئے ھیں ۔

جا بر ست لیمو اور سر کہ (Aceticacid) جیسے نبا تی تیزا بو ں سے بخو بی واقف تھے ۔ اس کے علا وہ جا بر کو علم ھئیت میں بھی کا فی عبور تھا ۔ جا بر کی کیمسٹری پر ایک سو تصا نیف ھیں ۔ اور کل تصا نیف کی تعداد پا نچ سو ھے ۔ بعض کتب کے نا م یہ ھیں ۔

اسرا رالکیمیا ، اصول الکیمیا ، کتا ب الھیئت ، کتا ب السما ء ، کتا ب الشمس ، کتا ب الارض ، کتا ب الزحل ، کتا ب المریخ ، کتا ب الزھرہ ، کتا ب العطا رد ، کتا ب القمر الا کبر ، کتا ب الزیچ اللطیف ، کتا ب شرح اقلیدس ، کتا ب شرح المجسطی ، دس تصا نیف پتھر پر اور دس کتا بیں علم نبا تات کے مو ضو ع پر تھیں ۔

بو علی سینا : ( بو علی سینا کی ولا دت ۹۸۰ء ۔ ۳۷۰ھ) میں ھو ئی ۔ اور وفا ت ۱۰۳۸ ۔۴۲۸ھ) میں ان کے والد کا نا م عبداللہ اور وا لدہ کا نام ستا رہ ھے ۔ ما ں اور با پ دو نو ں کی طر ف سے ایرانی النسل ھیں ۔ اھل یو رپ انھیں اولے سینا (Avesinna) کے نا م سے یا د کر تے ھیں ۔ محمد وآ ل محمد کی محبت سے سر شار ھے ان کے با پ اسمعیل تھے لیکن یہ آ ئمہ اثنا وعشری اما مت کے قا ئل تھے ۔ بو علی تما م عمر ایسے حکمرا نو ں کی سر پرستی حا صل کر نے کی کو شش میں رھے جو ایرانی تھے ۔ انھو ں نے بخا را میں تعلیم پا ئی ۔ اسلام کا یہ عظیم فرزند اپنے زما نے میں عظیم حکیم اور عظیم فلسفی اور ما ھر طبیعا ت تھا ۔ ان کی تصا نیف ایک سو کے قریب ھیں ۔ جن میں مشھو ر قا نو ن اور شفا جس میں فلسفہ طبیعا ت ۔ ریا ضی ، حیا تیا ت پر مضا مین ھیں ۔ الا شا رات اسرار لحکمتہ المشرقیہ ۔

محمد بن حسین بن عبد الصمد المعر وف شیخ بھا ئی : شیخ بھا ئی آپ کا لقب ھے اسی آپ مشھو ر ھیں آپ کی ولا دت بعلبک میں ۱۷ذی الحجہ ۹۸۳ہ ئمیں ھو ئی اور وفا ت ۱۲ شوال ۱۰۳۵ ہ اصفھا ن میں ھو ئی ۔ شیخ بھا ئی کو تفسیر و حدیث و تا ریخ کے ساتھ علم ھیئت میں بھی کما ل حا صل تھا ۔ آپ نے اس طرلا ب پر ایک رسالہ لکھا تھا ۔ قبلہ کی طر ف وسمت کے تعین پر ایک رسالہ ۔ اور ایک رسالہ سورج سے متعلق لکھا جس میں اس با ت کی و ضا حت کی تھی کہ ستا رے سورج سے نور اخذ کر تے ھیں اور ایک رسالہ عطا رو اور قمر کی ھیئت پر لکھا تھا ۔

ابو ریحا ن محمدابن احمد البیرو نی : ولا دت ۹۷۳ء میں ایران میں خوا رزم کے قریئے البیرون میں ھو ئی ۔ اور وفا ت ۱۰۴۸ ء غز نی میں ھو ئی ۔

البیرونی مختلف علوم کا ما ھر اور صف اول نما یا ں مسلم سا ئنسداں ھے ۔ علم طبیعا ت ، ھیئت و جغرا فیہ اور فلسفہ و حکمت اور ھندسہ و کیمیا اور آ ثا ر وقیمہ و تا ریخ و تمدن اور مسا حت وار ضیا ت غر ض کیئی علوم میں صا حب کما ل تھا ۔ یہ پھلا سا ئنسدان ھے کہ جس نے کھا کہ وادی سندہ کسی قدیم سمندر کے خشک ھو نے کا نتیجہ ھے کہ جو آ ھستہ آ ھستہ مٹی سے بھر گیا ۔ سنسکر ت ، نشر یا تی اور عبرا نی ز با نو ں کا بھی عالم تھا ۔ اور قو مو ں کے عرو ج و زوال اور تبا ھی و بر با دی کی دا ستا نیں اس کی تصانیف میں بکھر ی ھو ئی ھیں ۔ اور ۱۸۰ سے زاھد اس کی تصا نیف ھیں اور ۲۳ سال کی عمر میں علم و تحقیق کے کما ل کو پھنچ گیا تھا ۔ اس نے ۱۰۰۰ میں اپنی عظیم کتا ب آ ثا ر البا قیہ لکھی جسے اپنی سر پر ستی کر نے والے ھندستا ن کے با د شاہ قا بو س کے نا م سے معنون کی ۔

جر جا ن کے حکمر ان شمس المعا نی قا بو س ابن و شمگیر کے ھا ں قیا م کے دوران بھی تعمیر کی جھا ں ھمہ وقت تحقیق و تجر با ت میں مصر وف رھتا ۔ پھرجب محمودغزنوی نے خوارزم و جر جا ن اور اس کے گر د نواح پر حملہ کر کے تسلط قائم کر لیا تو البیرو نی کو ساتھ لے کر واپس غزنی آ گیا ۔ البیرو نی سے محمودغز نوی کے دربا ر کی رو نق بڑہ گئی ۔ قا نو ن مسعود ی سے معلوم ھو تا ھے کہ البیرونی نے ۴۱۵ہ تک کا عر صہ غز نی میں گزار ا اور وھا ں بھی ایک عظیم رصدگا ہ تعمیر کی جس میں ھیئت و بخو م کے آ لا ت دھوپ گھڑی ۔ اضطرلاب ، مقیا س الا ر تفا ع اور دور بین و غیرہ مو جود تھے ۔ البیرو نی نے علم ھیئت پر پندرہ کتب اور علم المنا ظر پر چا ر اور اوقا ت واز منہ پر پا نچ کتب اورد مدار ستا رے پر چا ر کتب اور احکا م النجوم بر سات کتب اور ھز ل و مزاح پر چودہ کتب اور عقا ئد وروا یا ت پر چہ کتب اور متفر فا ت پر با ئیس کتب تحریر کیں یہ وہ پھلا مسلم سا ئنسدان ھے کہ جس نے سب سے پھلے زمین کی گو لا ئی معلوم کی چنا نچہ جب محمود غزنوی ھندو ستا ن کی طرف بڑھا تو البیرو نی کو ساتھ لے پنجا ب میں ضلع جھلم کے علا قے میں نند نہ کے مقا م پر پھنچا تو البیرو نی کو یھا ں چھو ڑ کر ھندو ستا ن کی طرف بڑہ گیا ۔ تو ایک روز البیرو نی نے سیر وتفریح کے لئے جا تے ھو ئے دو مخرو طی پھا ڑیو ں کو دیکھا تو ایک پھاڑ ی پر چڑہ گیا اور اوپر جا کر بیٹہ کر کچہ حساب لکھنے لگا اوروھیں بیٹھے حساب کرتے ھوئے البیرونی نے زمین کی گولائی معلو م کرلی کہ جس کے مقابق تقر یباً پچیس ھزار میل ھے ۔ چنا نچہ ھزار سال قبل البیرو نی نے زمین کی جو گو لا ئی معلوم کی تھی اور مو جود وہ دور میں را کٹو ں کے ذر یعے زمین کاطوا ف کر کے جو گو لا ئی معلو م کی گئی ھے اس کے اور البیرو نی کی معلوم کی گئی گو لا ئی میں چند میل کا فرق ھے ۔

ابن رشد :

ولا دت ۵۱۴ہ اور وفا ت ۱۱۱۲ء قر طبہ میں ھو ئی اور چہ سال کی عمر میں قرآ ن حفظ کر لیا ۔ابن رشد کے کما ل میں اس کی بیو ی ھا جرہ نے بھی اھم کر دار اداکیا ۔ ابن رشد نے طب میں کتا ب الکلیا ت لکھی اور تیزاب ایجا د کیا جو آ گ کی طرح اشیا ء کو جلا دیتا ۔ اور اس سے لو ھا صا ف کیا جا سکتا تھا ۔ ابن رشد دار السطنت اشبیلہ میں مقیم ھو گیا تھا اور اسے خلیفہ ابن یو سف المو حد نے قا ضی القضا ة بنا د یا ۔ اس کے طلبا میں یو رپ کے عیسا ئی اور یھو د ی بھی تھے ۔ اس کی مشھو ر کتب کتا ب الر وح حیا ت بعد المو ت ، ما دہ عقل ، انسان ، کتا ب الکلیا ت ، منا قتبہ الفلا سفہ ، کتا ب الفصل ، المقا ل ، کتا ب کشف ، السنا بیج ، مذھب و فلسفہ میں ۔

اس نے فلسفہ پر ۲۸ کتب اور طب پر ۲۵ کتب اور فقہ واصو ل پر ۸ کتب اور علم کلا م پر ۶ کتب اور علم ھیئت پر ۴ کتب اور علم تجوید پر ۲ کتا بیں لکھیں ۔

اس نے ایک تجر بہ گا ہ بھی تعمیر کی تھی جھا ں وہ جا ندار و ں کے ڈھا نچو ں پر تحقیق کر تا تھا ۔ یو رپ کے علمی ترقی میں ابن رشد کی تصا نیف کا کا فی عمل دخل ھے ۔ یو رپ کے تما م فلسفی و سائنس دا نو ں نے اس کی کتا بوںکے مطا لعے سے عرو ج حا صل کیا اور ۶۸ سے زائد کتب آج بھی یو رپ میں مو جود ھیں ۔

ابو سعید بن احمد بن محمد بن جلیل ستجستا ئی :

ابو سعید احمد بن محمد بن عبد الجلیل ستجستانی ۔ ان کی ولا دت ۹۵۱ ء میں ھو ئی اور وفا ت ۱۰۲۲ ہ میں۷۳ برس کی عمر میں ھو ئی ۔

ریا ضی داں ھو نے کے ساتھ ھیئت داں بھی تھے ۔ اھل مغرب کے قول کے مطا بق سولھو یں صد ی میں کو پر نیکس پھلا سا ئنسداں ھے کہ جس نے زمین کی گردش کا نظر یہ پیش کیا ۔ لیکن کو پر نیکس سے نو صدی قبل قرآن حکیم نے زمین کی گر سش کا نظر یہ پیش کیا ۔ اس کے بعد آل محمد نے اسی نظر یئے کی و ضا حت کی ۔ مسلما ن محققین میں سے ابو سعید احمد بن محمدستجستانی پھلا مسلم سا ئنسداں ھے کہ جس نے کو پر نیکس سے چہ سو سال قبل زمین کی گر دش کا نظر یہ پیش کیا ۔

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

متعہ
[دین اور سیاست] نظریہ ولا یت فقیہ
تشیع کی پیدائش اور اس کی نشو نما (۲)
خدا کی راہ میں خرچ کرنا
جاہل کی پہچان
جن اور اجنہ کےبارے میں معلومات (قسط -2)
عدل الہی قرآن کی روشنی میں
دستور اسلام ہے کہ ہم سب ''معتصم بہ حبل اللہ''
تشيع کا خصوصي مفہوم
عبادت اور خدا کا ادراک

 
user comment